Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

سیاست یا ملامت

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
جوں جوں قومی انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں وقت کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں تیزی آرہی ہے ہمارے ہاں انتخابی ماحول پوری دنیا سے الگ ہوتا ہے دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں انتخابی مہم تہذیب کے دائرے میں ہوتی ہے، شائستگی کے ساتھ ہوتی ہے اس میں قومی امور اور ملکی معاملا ت پرعلمی، آئینی اور قانونی مباحثے کی فضا دیکھنے کو ملتی ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوا ہم اپنے مخالفین کی انفرادی زندگی پر گفتگو کرکے مہم چلا تے ہیں اور سیاست کو ملامت کا جامہ پہناتے ہیں

مرزا غالب نے کسی اور حوالے سے کہا تھا پھر طواف کوئے ملامت کو جانے ہے دل پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم کوئے ملامت سے نکلتے ہی نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا معاشرہ ملا مت کی زد میں ہے ہمارا سیاسی وطیرہ ایسا بنا ہوا ہے کہ ہر سنیٹر، ایم این اے، ایم پی اے اور وزیر کو محافظوں کی ضرورت ہوتی ہے پاکستانی شہری جب ملک سے باہر جاتا ہے تو یہ دیکھ کر حیراں ہو جاتا ہے کہ وزیروں سے لیکر افیسروں تک سب لوگ بسوں اور ریلوں میں عام شہریوں کے ہمراہ سفر کر تے ہیں کوئی اپنے ساتھ پولیس یا سیکیورٹی گارڈ لیکر نہیں پھرتا، پڑوسی ممالک بھارت، نیپال اور اسلامی مما لک ترکی، انڈونیشیا میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے، ہم نے ایک وی آئی پی سے پوچھا تم سیکیور ٹی کے بغیر کیوں گھوم رہے ہو اُس نے کہا میرا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں کسی کے ساتھ دشمنی نہیں، ہم نے پوچھا اپنی کار میں کیوں نہیں گھومتے اُس نے کہا میں اتنا امیر نہیں ہوں جمہوریت میں غریب ہی منتخب ہوتا ہے اور یہ جمہوریت کا حسن ہے اور اس وجہ سے جمہوریت کی تعریف کی جاتی ہے

ہمارے ہاں درجہ بہ درجہ سب کو سیا ست کے میدان سے کوئے ملا مت میں ایسے دھکیلا گیا ہے کہ بقول فیض یوں کہنے کو جی چاہتا ہے شہر دلبر میں اب با صفا کون ہے دست قاتل کے شا یاں رہا کوں ہے! کتب بینی کے شو قین شہریوں کو اچھی طرح یا د ہو گا کہ 1958ء تک ملکی تاریخ کے گیارہ سالوں میں صرف سیا ستدان ایک دوسرے کو ملا مت کے کو چے میں گھسیٹتے تھے، ممتاز دولتانہ، قیوم خان، ایوب کھوڑو، مشتاق گورمانی ، مولانا بھا شانی وغیرہ اس معا ملے میں سب سے آگے تھے، 1958کے بعد سول بیورو کریسی ، علمائے کرام اور صحا فیوں کو بھی کو چہ ملا مت کی طرف دھکیلا گیا یوں برائیوں کو مشہور کرنے کا شغل مزید طاقت پکڑ نے لگا

جوابی وار کرتے ہوئے مخا لفین نے ججوں اور جرنیلوں کے کر دار پرا نگلی اٹھا نا شروع کیا 1972کے بعد اداروں کی بے توقیری فیشن میں تبدیل ہوئی، طرح طرح کی جگتیں راءج ہوئیں، قسم قسم کے طعنے تراشے گئے بات اتنی پھیل گئی کہ الامان والحفیظ ، اب تو صورت حال یہ ہے کہ کسی معزز شہری کی دستار محفوظ نہیں، کسی صاحب عزت کی عزت محفوظ نہیں اور یہ کا م گلی کے لونڈوں، لپاڑوں نے نہیں کیا 1988ء سے 1999ء تک ہمارے قابل احترام سیا ستدانوں نے گا لی گلو چ کا جو بازار گرم کیا تھا وہ اب تک ٹھنڈا نہیں ہوا 2013ء سے 2023کے دوران آنے والے 10سالوں میں سیا ستدانوں نے منفی پرو پیگینڈے کے لئے نئے نئے طعنے تراش لئے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا اگر سیا سی قائدین میڈیا کو مثبت اور اچھی باتوں کے لئے استعمال کرتے تو سیاست میں با لغ نظری آجاتی، لیکن ایسا نہ ہو سکا چنا نچہ انتخا بات کا مو قع آتا ہے تو سیا سی کشیدگی میں اضا فہ ہو تا ہے یہ کشید گی بڑے بڑے قومی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے الیکشن کمیشن ایک ضا بطہ اخلا ق جا ری کرتا ہے مگرا س پر عمل درآمد نہیں کراسکتا انتخا بی اخرا جا ت کی حد مقرر کی جا تی ہے مگر خلاف ورزی کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملتی ہے یوں سیا ست یاکوئے ملا مت میں کوئی فرق نہیں رہاکوئی تمیز نہیں رہی۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!