پشاور کی توسیع
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
شہر گھومنے پھرنے کو دو دن ملے تھے چار سیاحوں کو لیکر سیٹھی ہاوس دیکھنے گیا چاروں غیر ملکی تھے اور تاریخ، لسا نیات، بشریات کے پروفیسر تھے انسانی سماج اور معاشرت میں ان کی گہری دلچسپی تھی انہوں نے ہوٹلوں اور دکانوں میں پشاور کی ثقافت کا بہت معمولی حصہ دیکھا تھا
سیٹھی ہاوس میں داخل ہو کر گویا وہ پشاور کی ثقا فت میں کھو گئے پشوریوں کے رہنے سہنے کا انداز، پشوریوں کا طرز معاشرت، ان کے رہنے کے کمرے، سونے کے کمرے، مہمانوں کے لئے مختص بیٹھک ،تین منزلہ اور چار منزلہ گھروں میں مکینوں کی اماجگاہوں کے الگ الگ اسلوب، ہر ایک کو اس کی ضرورت اور اس کے استعداد کے لحاظ سے منا سب جگہ کی فراہمی پشوریوں کی خصوصیت ہے پھر سیا حوں نے دیواروں کی ارائش اور فرش کی زیبائش میں دلچسپی لی، جھروکوں کے سلسلے کو دیر تک دیکھا لکڑی کے باریک کام اور رنگوں کے ذریعے نقش و نگار کے نمو نوں میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا دیواروں پر لگے طاقچے، طاقچوں میں رکھے ظروف ان کے لئے عجائب و نواردات سے کم نہ تھے دورہ سیٹھی ہاوس دو گھنٹوں کا مشغلہ تھا اس کے بعد سیٹھی ہاوس اور قدیم و جدید پشاور پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی
جب سیٹھی ہاوس کے مکینوں نے شہر کے مضا فات میں نئی بستی کے اندر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو بڑا سرمایہ دار آیا اُس نے یہ پرانا گھر خریدا ، اس کو مسمار کر کے 10منزلہ پلا زا بنا نے کا اعلا ن کیا لیکن شہر کے لوگوں نے اکھٹے ہو کر حکومت کو درمیان میں ڈالا، حکومت نے منہ مانگی قیمت دے کر سیٹھی ہاوس کی ملکیت حا صل کر کے اس کو عجا ئب گھر بنا یا اور سیاحوں کے لئے کھول دیا شہریوں کی توانا آواز نے ایک تاریخی ورثے کو پلا زا بنا نے نہ دیا شہروں کی تو سیع پوری دنیا میں ہوتی ہے مگر اصول یہ ہے کہ تو سیع کی وجہ سے کسی شہر کا قدیم ورثہ ضا ءع نہیں ہوتا ، قدیم ورثہ محفوظ رہتا ہے، اکیسویں صدی میں شا می روڈ اور حیات اباد کی پُر تعیش کو ٹھیاں سب کی پہلی تر جیح ہوتی ہیں گنج، اور گھنٹہ گھر کے قدیم مکا نات کی تاریخی حیثیت پر سمجھو تہ کر کے مضافات میں گھر بسا یا نہیں جا تا خصو صاً پشاور کا قدیم تعمیراتی ورثہ ما ہرین کے لئے ہمیشہ دلچسپی کا موضوع رہا ہے مشہور مورخ ٹائن بی نے بھی اس کا خصو صی ذکر کیا ہے فداء اللہ صحرائی نے اس پر بڑا کا م کیا ہے شہر کی تو سیع کے ساتھ ساتھ قدیم ثقا فتی ورثے کو محفوظ کر نے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں پڑو سی ملک چین نے ہر شہر کا قدیم ورثہ 100سال پہلے کی شکل میں محفوظ کر کے لو گوں کو وہاں بسایا ہے پا کستان کے ایک اور تاریخی شہر لا ہور میں گذشتہ تین عشروں سے قدیم عمارتوں کی بحالی اور حفاظت پر کام ہورہا ہے 30سالوں میں 14بار حکومتیں تبدیل ہوئیں مگر ’’والڈ سٹی پراجیکٹ‘‘ یعنی اندرون حصار لاہور کی بحالی و حفاظت کا منصوبہ جا ری رہا، اس کے فنڈ میں کسی نے رخنہ نہیں ڈالا
اس منصو بے کے کام میں کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی حکومت نے یو نیسکو اور آغا خان ٹرسٹ کا مالی و فنی تعا ون بھی حا صل کیا ہے مسجدوزیر خان، شاہی حمام اور دیگر تاریخی عمارات کی بحالی کا کام مکمل ہو چکا ہے کام زور و شور کیساتھ جا ری ہے یہ ایک اچھی مثال ہے بد قسمتی سے پشاور کی مثا ل اس کے با لکل الٹ ہے اگر ایک حکومت تحصیل گور کٹھڑی میں کا م شروع کر تی ہے دوسری حکومت ا اکے اس کو بند کر دیتی ہے ایک حکومت نے شہر کے تاریخی حصار اور اس کے مشہور دروازوں کی بحا لی پر کا م کا آغاز کیا اگلی حکومت نے پورا منصو بہ لپیٹ کر سرد خانے میں ڈال دیا ایک حکومت نے پشاور ہیری ٹیج ٹریلز کا منصو بہ شروع کیا اگلی حکومت نے فنڈ روک دیئے چنانچہ پشاور چوہے اور بلی کے کھیل میں پھنس کر رہ گیا ہے اور قدیم ثقافت کا امین شہر اپنے ثقا فتی ورثے کے حسن سے محروم ہوتا جا رہا ہے،
آثار قدیمہ اور تاریخ کے ما ہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں حصار اور دروازوں کے اندر واقع شہری آبادی کو تاریخی ورثہ قرار دیا جاتا ہے ہزاروں سال پہلے شہروں کو محفوظ کر نے کے لئے حصار کی ضرورت تھی شام ہوتے ہی دروازوں کو بند کیا جا تا تھا پشاور میں آسامائی دروازے سے لیکر کابلی، لاہوری اور ہشتنگری تک درجن بھر قدیم دروازے اس دور کی یاد گار ہیں غیر ملکی سیا ح پشاور کی تاریخ اور ثقا فت میں دلچسپی رکھتے ہیں جس طرح سیٹھی ہاوس پشاور کی قدیم تاریخ و ثقا فت کا شو کیس ہے اس طرح شہر کے اندر کئی دلچسپ مقا مات ہیں جو سیا حوں کے لئے دلچسپی کا باعث بن سکتے ہیں۔