داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
لوک ورثہ، لوک کہانی، لوک شاعری وغیرہ کو اردو میں مقا می دانش کا عام فہم نام دیا گیا ہے اس میں دستکاریاں بھی شامل ہیں مصوری اور موسیقی کے فنون بھی شامل ہیں یہ ایسا علم ہے جو گاوں، دیہات میدانوں یا پہاڑی وادیوں میں انسا نی تجربات سے جنم لیتا ہے اور انسانی تجربات میں ایسی یکسانیت ہوتی ہے کہ مشرق اور مغرب کے فاصلے سمٹ کر مٹھی میں آجاتے ہیں
اسلا م اباد میں وفاقی حکومت کے ورثہ ڈویژن نے لوک ورثہ شکرپڑیاں میں لوک میلہ کے دوران اس مو ضوع پر تین روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا تو پورے ملک، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے چیدہ اہل قلم کو مدعو کیا جنہوں نے مقامی دانش کے حوالے سے تحقیقی مقامات پیش کئے، پشاور سے پروفیسراباسین یو سفزئی اور ڈاکٹر سمیع الدین ارمان نے پختو ن ولی اور صوفی روایت پر الگ الگ مقالات پیش کئے آزاد کشمیر سے ڈاکٹر مقصود جعفری اور افضل بٹ نے شاہ ہمدان اور کشمیر ی شال پر اظہار خیال کیا، بلتستان کے احسان دانش کا مقا لہ صوفی روایت پر تھا جبکہ گلگت کے عبدا لخا لق تاج نے مقا می رسوم و رواج کے مٹتے نقوش پر روشنی ڈالی اور مقا می دانش کو بیرونی ہواوں کے یلغار سے محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا
کانفرنس کے اجلا سوں پر صو فی روایات اور صو فیا کی تاریخ کا غلبہ رہا صو فیا کی تاریخ پر ڈاکٹر تنویر انجم، ڈاکٹر شہباز علی، ڈاکٹر اختر جند رانی اور ڈاکٹر سمیع الدین ارمان کے مقا لات متاثر کن تھے صوفی اپنا سلسلہ روز الست سے جو ڑتا ہے صو فیوں کے ہاں سماع کی جو روایت ہے وہ بھی وعدہ الست سے جڑی ہوئی ہے اور روح میں رچی بسی ہے اورنگ زیب عالمگیر نے دارا شکوہ کو شکست دینے کے بعد قوالی پر پا بند ی لگا ئی تو قلعہ کے دروازے پر ایک علامتی جنا زے کا جلو س آپہنچا عالمگیر نے پو چھا کس کا جنا زہ ہے مخبروں نے کہا مو سیقی کا جنازہ ہے عالمگیر نے حکم دیا گہری قبر کھود کر اس کو دفن کرو تا کہ دوبارہ سر نہ اُٹھا سکے
عالمگیر کے پڑدادا جلا ل الدین محمد اکبر کا طرز عمل بہت مختلف تھا ان کے نو رتنوں میں طان سین جیسا عظیم مو سیقار بھی شامل تھا خان خانان، ابو الفضل اور فیضی بھی موسیقی کے ساتھ شفف رکھتے تھے فیضی کا باپ ملا مبارک فن مو سیقی کا ماہر تھا ایک بار شہنشاہ اکبر نے طان سین سے کہا کہ راگ دیپک ملا مبارک کے لئے گاءو جب راگ ختم ہوا تو باد شاہ نے داد طلب نظروں سے ملا مبارک کی طرف دیکھتے ہوئے پو چھا کیسا ہے ;238; ملا مبارک نے کہ ’’گا لیتا ہے‘‘ صو فی روایات میں دھمال بھی ایک اہم روایت ہے محققین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ گورونا نک بھی صو فیا کے ایک طبقے کا نما ئندہ تھا باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد اور خدائی خد مت بھی صو فیا کی تعلیما ت کا حصہ ہے محبت اور خد مت صو فیا ء کا متفقہ مسلک ہے کوئی صوفی مکتب فکر اس مسلک سے اغراض نہیں کرتا
لوک ورثہ اسلا م اباد کا لو ک میلہ 1981ء میں شروع ہوا 1986تک یہ میلہ اتنا مقبول ہوا کہ سارک ممالک کے دست کار بھی اس میلے میں شرکت کرنے لگے، میلے کے مو قع پر نیشنل کرافٹس کونسل کا جنرل باڈی اجلا س بھی ہوا کرتا تھا اور ہر سال ایک بڑے فنکا ر کی دستار بندی کی جا تی تھی کئی فنکاروں کو پراءڈ آف پر فارمنس کے لئے نا مزد کیا جا تا تھا اس کے پس منظر میں فیض احمد فیض، عکس مفتی، خا لد جا وید، آدم نئیر، شمیم زیدی، اقبال جتوئی، مظہر لاسلام اور کئی دیگر اہم شخصیات کی محنت تھی خا لد جا وید کا کہنا ہے کہ لو ک ورثہ کی ریسرچ ٹیم نے لوک فنکاروں اور دستکاروں کی تلا ش و جستجو میں 1976سے لیکر 1996تک 20سالوں میں 8لا کھ کلو میٹر کا سفر طے کیا فنکا روں اور دستکا روں کو تلا ش کیا، فن کے نادر نمو نے جمع کئے، ملک کا عظیم الشان نسلیا تی اور بشریاتی ورثہ عجائب گھر قائم کیا، 25لا کھ گھنٹوں کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ نگز پر مشتمل نیشنل ہیریٹیج ارکائیو وجو د میں آیا
کانفرنس کی نمایاں بات یہ تھی کہ ڈاکٹر شمیم زیدی، اقبال جتو ئی اور خا لد جاوید نے مختلف اجلا سوں میں شرکت کر کے اپنے تجربات سے حاضرین کو مستفید کیا کانفرنس کے انعقاد میں ورثہ اور ثقا فت کے نگران وزیر جما ل شاہ کی کوششوں کا بڑا ہاتھ تھا ڈاکٹرزوبیہ سلطانہ نے اہل قلم کو یکجا کرنے میں تندہی سے کام کیا اس سلسلے میں یونیسکو نے فنی اور ما لی تعاون سے کا نفرنس کو کا میاب بنا یا یو نیسکو کی ڈاکٹر کر یسٹینا، مسٹرجواد اور مریم خود بھی کانفرنس میں شریک رہیں لوک میلہ میں خیبر پختونخوا کا بہت بڑا پیو یلین تھا چترال کے دستکاروں کو اس میں جگہ نہیں ملی تو کشمیر پیو یلین میں جا کر سٹال لگا یا کا لا ش کے نام پر سٹال تو مو جود تھا مگر اس پر کا لا ش کی جگہ پختا نہ خوا تین کا لا ش لباس میں اقلیت کی نما ئندگی کر رہی تھیں اس طرف جما ل شاہ صاحب کی تو جہ دلا ئی گئی تو انہوں نے تعجب اور افسوس کا اظہار کیا