Site icon Chitral Today

نگرانوں پر نگرانی

Inayatullah Faizi

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
اسمبلیوں کی تحلیل کا کام مکمل ہونے کے بعد چند دنوں میں نگران حکومتیں آنے والی ہیں یہ بہت خوش آئیند بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے نگران حکومتوں میں سیاست دانوں اور سیاسی تقاریر جھاڑ کر تالیاں بجوا نے والوں کی شمولیت پر پابندی لگائی ہے اس حکم کے تحت نگران حکومتوں میں پڑھے لکھے، تجربہ کار اور اچھی شہرت کے ریٹائرڈ افیسروں کے علا وہ صحا فی، وکلا اور سول سوسائیٹی کے نیک نام لوگ آئینگے کم از کم تین مہینوں کے لئے عوام کو صاف ستھری حکومت ملے گی یہاں تک ’’سب اچھا‘‘ ہے آگے ایک خدشہ جنم لے رہا ہے

خد شہ یہ ہے کہ اگر سابقہ حکومتوں کی دیکھا دیکھی نگران حکومتوں میں بھی 60وزراء اور 40معاونین خصوصی بھرتی کئے گئے تو صاف ستھری انتظا میہ کا خواب چکنا چور ہو جائیگا ووٹ کے بعد ہمارے ہاں سیاست دانوں کی جو حکومت آتی ہے اس کی دو بڑی مجبوریاں ہو تی ہیں پہلی مجبوری یہ ہو تی ہے کہ جن لو گوں نے الیکشن میں دو چار ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی ان کو اپنا سرمایہ بمعہ منا فع واپس لینے کے لئے وزارتیں دینے کی ضرورت ہوتی ہے دوسری مجبوری یہ ہے کہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو وزارت دیکر آنے والے الیکشن کے لئے دس بارہ ارب روپے جمع کرنے کا موقع دینا ہوتا ہے دونوں مجبوریاں ایسی ہیں کہ وزیر یا معاون خصوصی بھرتی کئے بغیر سرکاری خزانے سے پیسہ نکالنا ممکن نہیں

اس وجہ سے 96بندوں کی کا بینہ وجود میں آتی ہے قوم اور ملک کا بیڑہ غرق ہوجا تا ہے نگران حکومت میں اگر بے داغ ما ضی اور اجلے دامن والے لو گ آگئے تو ایسی کوئی مجبوری نہیں ہو گی اس لئے منا سب اور معقول تجویز یہ ہے کہ وفاقی کا بینہ کا حجم 12وزیروں سے زیا دہ نہ ہو، صو بائی کا بینہ میں و زیروں کی زیا دہ سے زیا دہ تعداد 15ہونی چاہئیے یہ گڈ گورننس اور اچھی نظم و نسق یا نقاءص سے پا ک انتظا میہ کے لئے لا زم ہے ہمارے سیاست دانوں نے وزیروں اور معا ونین خصو صی کی بھر تی کے لئے وفاقی وزارتوں اور صو بائی سطح کے محکموں میں توڑ پھوڑ کر کے ایک وزارت یا محکمے کو تین یا چار وزارتوں یا محکموں میں تقسیم کر دیا ہے دوسرے ملکوں کے لو گ خبروں میں ہمارے وزیروں کے محکمے دیکھ کر حیراں ہوجا تے ہیں غیر ملکی اخبار نویس ہمارا مذاق اڑا تے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ قانون کا الگ وزیر ہے پارلیمانی امور کا الگ وزیر ہے انسانی حقوق کا الگ وزیر ہے اسی طرح صوبائی سطح پر آکر ماحولیات کا الگ وزیر ہے جنگلات کا الگ وزیر ہے، جنگلی حیات کا وزیر کوئی اور ہے مزید ستم ظریفی دیکھئے فشریز یعنی ماہی پروری کا وزیر کوئی اور ہے اس حساب سے پھر معاونین خصوصی بھر تی کئے گئے ہیں

یہ لوگ کسی کام میں خصو صی معاونت کرتے ہیں یہ بات اب تک سر بستہ بلکہ سر بمہر قسم کا راز ہے فرنیچر، دفاتر، سٹیشنری اور گاڑیوں کی مد میں مقروض قوم کے خا لی خزانے سے جو فضول اخراجات ہوتے ہیں ان کا رونا ہم نہیں روتے جس چیز کا رونا ہم روتے ہیں وہ دفتری نظام کی تبا ہی اور نظم ونسق کی بر بادی ہے چند سال پہلے فشریز کے وزیر نے دفتر میں آکر اپنے سکرٹری سے کہا قائد اعظم کی تصویر اتار کر میری تصویر لگاءو اب اس محکمے کا وزیر میں ہوں، یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ جنگلی حیات کے وزیر کو مارخور وں کے جنگل کی سیر کرائی گئی تو اس نے فائر کر کے تین مار خور مار گرائے جب واچر نے کہا سر یہ غلط کام ہوا تو اُس نے کہا کیوں کیا غلط ہوا، میں اس محکمے کا وزیر ہوں یہ میرا حق ہے میرا پکا اختیار ہے دوسرے افیسران نے مداخلت کر کے واچر کو چپ کرایا اور بعد میں اُسے نوکری سے معطل کر کے گھر بھیجدیا ایسی مثا لوں کی کوئی کمی نہیں اس لئے منا سب بات یہ ہے کہ نگرانوں پر بھی نگران بٹھا یا جا ئے اور نگران کا بینہ کو مختصر کر کے وزا رتوں اور محکموں پر ایک بار پھر عدالتی قدغن لگا کر ان کو 1985ء سے پہلی والی سطح پر لایا جائے تا کہ آنے والے لو گ ان کی توڑ پھوڑ نہ کر سکیں اور آئیندہ کے لئے کا بینہ کا حجم 12یا 15وزیر وں سے زیا دہ نہ ہو

Exit mobile version