سادگی اور کفایت شعاری
داد بیداد
سادگی اور کفایت شعاری اسلامی اصول ہے اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی مبارک ادوار میں اس کی نمایاں مثالیں ملتی ہیں خلافت راشدہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سادگی سے حکومت کرنے کی عملی مثال قائم کرکے دکھائی ایرانی انقلاب اور افغان طالبان کی حکومتیں آنے کے بعد سادگی کی کئی اچھی مثالیں دیکھنے کومل گئیں۔
وطن عزیز پاکستان میں سادگی اور کفایت شعاری کادعویٰ باربار کیاگیا مگر اس پر عمل کبھی نہیں ہوا۔ پاکستان میں طالبان جیسی لیڈر شپ بھی نہیں اور ایسی حکومت آنے کا امکان بھی نہیں اس لئے یہاں سادگی اور کفایت شعاری کاخواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔ پبلک مقامات پرخوشی اور غمی کے اجتماعات میں گذشتہ چند ہفتوں سے ایک تجویز گردش کررہی ہے تجویز یہ ہے کہ چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف مل کر نگران حکومت کرائیں تومنتخب حکومتوں کے لئے بھی مثال قائم ہوگی ایسے مواقع پرتجربہ کار سیاستدانوں ،صحافیوں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ، ریٹائرڈ فوجی حکام اور ریٹائرڈ ججوں کی طرف سے جومشورے سننے کوملتے ہیں وہ تین طرح کے مشورے ہیں۔
پہلا مشورہ یہ ہے کہ وزیراعظم ،وزرائے اعلیٰ،اراکین کا اور صوبائی گورنروں کی سرکاری رہائش گاہوں کو خالی کرکے ان سب کو سادہ اور مختصر گھروں میں رہنے کا پابند کیا جائے اگر جرمنی کی چانسلر 5مرلے کے گھر میں رہ کر حکومت کرسکتی ہے توپاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک کے حکمران 5مرلے کے سادہ گھروں می کیوں نہیں رہ سکتےیقینی طورپر رہ سکینگے۔ گھروں کی سادگی کے ساتھ پروٹوکول کی گاڑیوں کو بند کیا جائے سیکیورٹی پرمامور پولیس اور ایف سی یا رینجر کے45ہزار اہلکاروں کو برکوں میں بھیج کرامن عامہ بحال کرنے پرلگایا جائے ان کو ایک گاڑی ایک ڈرائیور دیدیاجائے ۔ اس طرح 25ہزارگاڑیوں کا پیٹرول بچ جائے گا اور ہرماہ حکومت کو سیکیورٹی اور پروٹوکول کی مد میں 35ارب رپے کی بچت ہوگی یہ رقم ہرماہ فضول مد میں خرچ ہوجاتی ہے۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ ترقیاتی اُمور، بجٹ کے استعمال اور ترقیاتی سکیموں کی منظوری میں وزیراعظم ،وزراء، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے تمام اختیارات ختم کئے جائیں، جابان، سنگاپور، چین اورامریکہ کی طرح ترقیاتی کاموں کے تمام اختیارات سرکاری محکموں کودے دئیے جائیں سرکاری محکمے فنی اور تکنیکی امور،بچت کی سہولت اورعوامی ضروریات کودیکھ کرسرکاری وسائل کو سوچ سمجھ کراستعمال کرینگے مقروض قوم کے سرکاری وسائل کاضیاع نہیں ہوگا ترقیاتی اہداف ملکی ضرورت اور عوامی مفاد کوسامنے رکھ کر طے کئے جائینگے۔
اس میں سیاسی مداخلت نہیں ہوگی شخصی مفادات کاعمل دخل نہیں ہوگا حلقے کی سیاست کے نام خزانہ کو لوٹنے کا دروازہ بند ہوجائے گا نیز سرکاری کاموں کے ٹھیکوں کی بندربانٹ اور سیاستدانوں کے ہاتھوں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرامکے حجم سے80فیصد کمیشن کی کٹوٹی بھی بند ہوجائیگی۔ قیام پاکستان سے پہلے 10فیصد کمیشن کی اجازت انتظامی سہولیت کے لئے دی گئی تھی وہی سہولت برقرار رہی تو20کروڑ روپے کی سکیم پر18کروڑ روپے خرچ ہونگے اور کام کا معیار بھی قیا م پاکستان سے پہلے کی طرح بہترین ہوگا ۔
تیسری تجویز یہ ہے کہ سادگی اور کفایت شعاری کوحقیقی معنوں میں اپنانے کے لئے سرکاری ملازمین کی تبدیلی اور پوسٹنگ کے عمل میں وزیراعظم ،گورنر اور وزرائے اعلیٰ سے لیکر وزیروں اور ارکان اسمبلی تک سیاستدانوں کے اختیارات ختم کرکے قانونی مدت پرعمل درآمد کویقینی بنایاجائے ایک آفیسر یانوکر کسی سٹیشن پرتعیناتی کےلئے رکن اسمبلی یاوزیر کی سفارش کا محتاج نہ ہوگا توسسادگی اور کفایت شعاری پرعمل درآمد میں آسانی ہوگی۔
چونکہ نگران حکومت میں نیک نام اور غیرجانبدار شخصیات کولیا جاتا ہے اس لئے وہ سڑکون اور گلیوں میں کسی خوف اور خطرے کے بغیر گھوم سکتے ہیں وہ 5مرلے کے مکان میں رہ سکتے ہین، وہ سرکاری حکام سے بھتہ لینے اور ناجائز کام کروانے کے محتاج نہیں ہوتے اس لئے سادگی اور کفایت شعاری کی ابتداء کے لئے نگران حکومت سب سے بہترین موقع ہے دونوں چیف صاحبان کو اس پرغور کرنا چاہیئے۔
A very nice article indeed. Wish heed is paid to it by those who make and manage policies.