ہنگامی حالت
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
خیبر پختونخوا میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بعد تین ہفتوں کے لئے ہنگامی حالت کا اعلا ن کیا گیا ہے متا ثرہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے ہنگامی حالت کا حکمنامہ جاری کیا ہے اس حکم کے تحت پانچ سے زیا دہ افراد کے یکجا ہونے پر پابندی لگائی گئی ہے اور تمام محکموں کو سیلا ب سے متاثرہونے والی آبادی کی مدد کے لئے چوکس اور تیار رہنے کے ساتھ موقع پر جاکر عوام کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اعلیٰ سرکاری حکام نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے حکومت نے متاثرہ اضلاع کے لئے دو دو کروڑ روپے کی ہنگامی امداد جاری کر نے کا اعلان کیا ہے
ان خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کے لئے پر عزم ہے اور متاثرین کی بحالی تک امدادی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہتی ہے مروجہ طریقہ کار اور ایس او پی کی رو سے سیلاب کے دوران لوگوں کی جانوں کو بچانا اور متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا سب سے پہلی تر جیح ہوتی ہے سیلاب گذرنے کے بعد پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ سڑکوں اور پلوں کو بحال کیا جائے پینے کے پا نی کی فراہمی میں جو نقصانات ہوئے ان کی مرمت کرکے نلکوں کا پانی بحال کیا جائے ٹیلیفون اور بجلی کی لائینوں کو بحال کیا جائے سکول اور ہسپتال کو اگر نقصان پہنچا ہو تو اس کو بحال کیا جائے آپ پاشی کی جو نہریں متاثر ہوئی ہوں ان کو بحال کیا جائے انفراسٹر کچر کی بحالی کے ساتھ محدود پیما نے پر خیمے کمبل اور خو راک مہیا کرنا بھی ضروری ہے
مگر یہ واحد کا م نہیں جن لوگوں کو ایسے کا موں کا تجربہ رہا ہے وہ اپنے تلخ تجربات کی روشنی میں دو تجا ویز حکومت کے سامنے رکھتے ہیں پہلی تجویز یہ ہے کہ ہنگا می حا لت کا اعلا ن کرنے کے بعد صو بائی دار لحکومت کے بڑے دفاتر کو بھی ہنگا می حا لت کا پا بند کیا جا ئے امدادی فنڈ جا ری کرتے وقت پیشگی کمیشن نہ لیا جا ئے فنڈ کے لئے ایڈ منسٹریٹیو اپرو ویل ہنگا می حا لت میں مفت دے دی جا ئے ، فنڈ کو ہنگا می حا لت کے تحت کمیشن کا انتظار کئے بغیر ریلیز کیا جا ئے اور ریلیز کرنے کے بعد ضا بطہ کار کے تحت پنچ کرنے کے لئے جو کمیشن لیا جا تا ہے وہ بھی معاف کیا جا ئے یہ ہنگا می حا لت کا کم سے کم تقا ضا ہے تجربہ کار لو گوں کی دوسری تجویز یہ ہے کہ ہنگا می حا لت میں کنٹریکٹر کے بجا ئے مقا می تنظیموں کے ذریعے کام کروایا جائے اس طرح مقروض قوم اور مقروض صوبے کے خا لی خزا نے سے جو فنڈ آئیگا وہ متا ثرین تک پہنچے گا
موجو دہ طریقہ کار کے تحت کام کا ٹھیکہ حیدر اباد یا کوئیٹہ کے ٹھیکہ دار کو دیا جا تا ہے وہ دیر ، چترال یا مردان آنے کی زحمت نہیں کر تا سر کاری ضا بطہ کار کے تحت اوکاڑہ یا کر اچی کے کسی شخص کو سب لیٹ کر تا ہے وہ شخص بھی کام کی جگہ پر نہیں آتا اور کوشش کر کے ڈی آئی خا ن یا ہر ی پور کے کسی بندے کو سب لیٹ کر تا ہے یہ تیسرا شخص کسی مقا می آدمی کو سب لیٹ کر کے فارغ ہو جا تا ہے اس شخص کو کا م کا کوئی تجربہ نہیں ہو تا اس کے پاس نہ سرمایہ ہوتا ہے نہ مشنیری ہو تی ہے چنا نچہ کا م کا بیڑہ غر ق ہوجا تا ہے اور فنڈ کا 80فیصد سب لیٹ کی نذر ہو جا تا ہے
اس لئے ہنگا می حالت کا تقاضا یہ ہے کہ سرکاری قواعد و ضوا بط کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے بحالی کے تمام کا م این جی اوز کو دے دیئے جائیں ان کا اور ہیڈ 12فیصد سے زیا دہ نہیں ہوتا اور کا م سو فیصد تسلی بحش طریقے سے ہو جاتا ہے جب حکومت نے متاثرین سیلا ب کی امداد کے لئے ہنگامی حالت کا اعلان کیا ہے تو ہنگامی حالت کا نفاذ حکومت کے گھر سے شروع ہونا چاہئیے فنڈ کی فراہمی اور فنڈ کے استعمال میں سرکاری رکاوٹوں کو دور کر کے این جی اوز کو فنڈ منتقل کیا جا ئے تاکہ متا ثرین کی داد رسی ہوسکے اور انفراسٹرکچر کی فوری بحا لی ممکن ہو سکے۔