Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

سیرگاہ

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
Dr Inayatullah Faiziگرمیوں کے موسم میں سیر گاہ کی اہمیت بڑھ جا تی ہے دوستوں کی ٹولیاں سیر کا پروگرام بناکر پہا ڑی مقا مات کا رُخ کرتی ہیں ان ٹولیوں کے پاس رہنے سہنے، چلنے پھرنے اور کھانے پینے کا اپنا بندوبست ہوتا ہے ماحولیاتی تحفظ کے ماہرین کہتے ہیں کہ سیرگاہوں پر اگر سیاحوں کی تعداد زیادہ ہوجائے تو پہاڑی مقامات کے صاف ستھرے ماحول کو نقصان پہنچتا ہے

مگر سیر پر جانے والے ماہرین سے مشورہ کرکے نہیں جاتے ماہرین کو ساتھ لیکر بھی نہیں جاتے اس لئے ہم سیر گاہوں کا رخ کر تے وقت اپنی سہولت کا خیال رکھتے ہیں ماہرین کی سفارشات پر توجہ نہیں دیتے مجھے یاد ہے جب سکول یا کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ سیر پر جاتے تھے اس کو پکنک کہتے تھے پکنک کی دو بڑی خصوصیات ہوا کرتی تھیں
پہلی خصوصیت یہ تھی کہ پکنک کے دوران اسا تذہ اور طلبہ کے درمیان جو روایتی فا صلہ ہے وہ فاصلہ مٹ جا تا تھا استا دوں نے لکڑیاں جمع کیں شا گردوں نے آگ جلا یا اسا تذہ نے بکرے کو ذبح کیا طلبہ نے گوشت پکا یا اساتذہ نے خیمہ نصب کیا طلبہ نے بستر لگا یا ہلکی پھلکی مو سیقی دونوں ملکر سنتے تھے تعلیمی ادارے کا ما حول پکنک کے دوران با لکل بدل جا تاتھا پکنک سے واپس آکر ایک بار پھر وہی استاد اور شا گرد والا فا صلہ وہی احترام وہی ’’ہٹو بچو‘‘ والا ماحول لوٹ آتا تھا
اس قسم کے سیر کی دوسری نما یاں خصو صیت یہ ہوتی تھی کہ اساتذہ پکنک کے اداب کا خیال رکھتے تھے طلبہ کو تلقین کر تے تھے کہ سیر گاہ پر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے ادھر ادھر نہ پھینکیں، شا پر ادھر ادھر نہ پھینکیں، سیر گاہ کی خوب صورتی کو نقصان نہ پہنچائیں سیرگاہ کے قدرتی ماحول کو مضر اشیاء سے آلو دہ نہ کریں، جہاں بیٹھ کر کھا نے پینے کی کوئی چیز کھا ئیں یا پئیں اٹھتے وقت سارا کچرا کسی شا پر میں ڈال کر اٹھا لیں اگر قریب کوڑا دان ہو تو اس میں ڈالیں کوڑا دان نہ ہو تو سارا کچرا اٹھا کر سیر گاہ سے واپسی پر گاڑی سے اتر تے وقت کوڑے دان میں ڈال دیں اس طرح تم سیر گاہ کی حفاظت کا حق ادا کر سکوگے تم سے پہلے لو گوں نے سیر گاہ میں کچرا نہیں پھیلا یا اس لئے تمہیں سیر کی صاف ستھری جگہ مل گئی اگر تم بھی جا تے وقت اس جگہ کو صاف ستھر ی حا لت میں چھوڑ کر جا ءو گے تو تمہارے بعد آنے والوں کو صاف ستھرا ما حول ملے گا سیر گاہوں پر سیر کے لئے جا نے والوں کی مختلف اقسام ہیں پہلی قسم وہ ہے جس میں بلند پہا ڑی چو ٹیوں کو سر کرنے کے لئے مہم جو سفر کر تے ہیں ان کے پاس ما حول کو صاف رکھنے کا با قاعدہ انتظام ہوتا ہے
یہ لوگ پہا ڑوں پر جا تے وقت شہر سے اگر 20من وزن لے جا تے ہیں تو واپسی پر کم از کم 5من کچرا کرایہ دے کر شہر تک لاتے ہیں اور محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگاتے ہیں دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو پہاڑی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے پہاڑی دروں کو عبور کر تے ہیں یہ لوگ بھی اپنے سفر کا سارا کچرا واپس لا کر محفوظ طریقے سے ٹھکا نے لگانے کا انتظام کرتے ہیں ان لو گوں سے ما حول کو کسی قسم کا خطرہ نہیں سیر گاہوں کے صاف ستھرے ماحول کو سیا حوں کی ان ٹو لیوں سے خطرہ ہے جو کسی سوچ، فکر اور تر بیت کے بغیر منہ اٹھا کر سیر کو نکل جا تے ہیں اگر کسی آبشار کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں تو وہاں کچرے کا ڈھیر لگا کر لو ٹتے ہیں اگر کسی چشمے پر سستا نے کے لئے بیٹھیں تو چشمے پر بھی چھلکے اور شاپر چھوڑ کر اٹھتے ہیں اگر کسی خوب صورت سبزہ زار میں کیمپنگ کر تے ہیں تو صبح روانہ ہو تے وقت اس جگہ چھلکوں، بوتلوں، ڈبوں اور شا پروں کا ڈھیر لگا کر جا تے ہیں ہمارے استاد کہا کرتے تھے سیر گاہ کو صاف کر کے جا ءو اگلی دفعہ تم یہاں آءو گے تو تمہیں صاف ستھر اما حول ملے گا ما حول کو صاف رکھئیے اپنے لئے اور دوستوں کے لئے۔
You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!