گل عدن چترال
ہمارے بزرگوں نے یقینا بڑا کٹھن وقت دیکھا ہے تبھی تو کیا کیا کمال محاورے اور کہاوتیں بیان کی ہیں۔ مثلا اس کہاوت پر غور فرمائیں کہ ایک گندہ مچھلی پورے تالاب کو گندہ کردیتا ہے۔واقعی تالاب کتنا ہی شفاف ہو بس ایک، ایک گندہ مچھلی پورے تالاب کو گندہ کردینے کے لئے کافی ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ہماری جان ایمان اور عزت کو ہے اور جو ہمارے جان ایمان اور عزت کی دشمن بنے ہوئے ہیں میں انہیں اس معاشرے کا گندہ مچھلی سمجھتی ہوں میرا موضوع سخن بھی موجودہ دور کی گندہ مچھلیاں ہیں جو میرے مطابق یعنی میری نظر میں گندہ مچھلیاں ہیں۔
قارئین کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہے۔ چونکہ جان ہے تو جہاں ہے سو ہمارے لئے دنیاوی زندگی کی ضمانت ہماری صحت اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہمارا ایمان ہے۔سو اسی کے پیش نظر موجودہ دور میں ہمیں جن(گندہ مچھلیوں کا) لوگوں کا (سب سے زیادہ) سامنا ہے اور جن سے ہر وقت خطرہ لاحق ہے ہماری جان اور ہماری ایمان کو، وہ “نیم حکیم اور نیم ملا” ہیں۔ آپ نے کہاوت تو سنی ہوگی، نیم حکیم خطرہ جان’نیم ملا، خطرہ ایمان۔ آپ یقین کیجئے یہ کہاوت حرف با حرف سچ ہے۔ اور رونے کا مقام یہ ہے کہ یہ نیم حکیم والی مخلوق ہر گھر ہر خاندان میں موجود ہیں آپ چاہ کر بھی ان سے چھٹکارا نہیں پاسکتے نہ ہی انکی شر سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ آپ نے کتنے ہی ایسے حکیم لوگ دیکھے ہوں گے جو گھر میں کسی بیمار کا علاج اپنے مطابق کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ کتنے ہی ملاؤں سے آپ کا بھی واسطہ پڑتا ہوگا جو آپ کو زبردستی اپنے اسلام پر چلانا چاہتے ہیں۔ آپکی وضو، نماز کے طریقہ کار کو بلکل سرے سے غلط قرار دینا، اٹھتے بیٹھتے اسلام کا ورد کرنا گناہ ثواب کی باتیں کرکے ،قیامت کی نشانیاں بتا بتا کر (یہ جانے بغیر کہ وہ خود قیامت کی نشانی بن چکی ہیں نیم ملا کی صورت میں)، دو چار سننے والے مل جائیں تو انہیں اپنی طرح گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا مثلا باتوں باتوں میں خواب وتعبیر کی باتیں،جسکے ذریعے بدگمانیاں پھیلانا، جنات سحر جادو کی باتوں کو فروغ دینا، تعویز گنڈوں کی چکر میں خود بھی پڑنا اور تعویز کرنے کرانے کو اسلام سے جوڑ کر دوسروں کو بھی اس راہ میں ڈالنا، نیکیوں کو بدعت بنا کر پیش کرنا اور بدعتوں کو نیکی کی صورت پھیلانا ‘نیم ملاوں کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جن سے ہمارا روزمرہ کی زندگی میں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔جو چھوٹے چھوٹے خود ساختہ حکیم اور ملاء ہمارے گھروں میں موجود ہیں دراصل انہی کی جہالت کی بدولت بڑے بڑے فتنے’حکیم اور ملا کی صورت میں انٹرنیٹ پر اور گلی گلی میں،لوگوں کی جان اور ایمان اور عزتوں سے کھیل کر اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان نیم حکیموں اور ملاؤں سے کیسے نمٹا جائے؟؟دجال کے جتنے فتنوں سے ہمیں ڈرایا جاتا رہا آج ملا کی صورت میں انٹرنیٹ سوشل میڈیا ہر جگہ ان دجال ملا اور حکیموں نے اپنی اپنی دکان سجائی ہوئی ہے ۔اس سے بڑا فتنہ کیا ہوگا کہ ایک ہی گھر میں رہنے والوں کا اسلام الگ الگ ہے ہر ایک نے یوٹیوب پے اپنے اپنے مزاج کا مولوی ڈھونڈ لیا ہے اور اسے اپنا راہبر تسلیم کر لیا ہے اور آنکھیں بند کیے خود تو پیروی کر رہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گھسیٹ کر اپنی راہ پر چلانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔
کسی محفل میں کوئی اپنی کسی بیماری کا کسی جسمانی تکلیف کا ذکر نہ کرے۔ کچھ ہی لمحوں میں آپکو سینکڑوں مفت ٹوٹکے اور حکیموں کے نام اور پتے مل جائیں گے۔ بھول کر بھی کسی محفل میں آپ دین سے متعلق کوئی مسئلہ بیان نہ کریں۔ آپکو اتنی دلیلیں دی جائیں گی دین کی ایسی تشریح پیش کی جائیگی کہ اک لمحے کو تو آپکو لگے گا شاید آپ اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے ہیں۔ کسی نیم ملا سے نماز کا طریقہ پوچھ لیں وہ ایک چٹکی میں آپکی ساری زندگی کے سجدوں کو غلط ثابت کردیگا۔ ایک لمحے میں آپکو آپکے سجدوں سے بد گمان کرنے والا شخص کھبی بھی آپکی آخرت نہیں سنوار سکتا۔ایک گھر کے اندر سب کے الگ الگ قبلے ‘گھر کی ایک خاتون کا دوسری خواتین سے مختلف انداز نماز ان نیم ملاوں کی کامیابی کا ثبوت ہیں۔دین اتنا مشکل نہیں ہے جنتا گلی گلی اسلام کا چورن بیچنے والے مولویوں نے بنایا ہے اور انسان کا صحت مند رہنا بہت آسان ہوتا بشرطیکہ بیماری کی صورت میں ہم پر جان چھڑکنے والے ہمارے اپنے’ہماری عیادت کو آنیوالے عزیز رشتہ دار ‘محلے والیاں وغیرہ وغیرہ ازراہ ہمدردی اپنے اعلی پائے کے حکیموں کے ایڈریس بمعہ ٹوٹکے ہمیں نہ بتا کر جائیں خدارا۔
مجھے ایسے فتنوں سے خود کو بچانے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی بس اتنا ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے مسائل کو اپنی ذات تک محدود رکھیں اور خود ہی انکا حل ڈھونڈیں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں اور اپنی بیماریوں کا تذکرہ سر محفل بلکل نہ کریں گو کہ ایسا کرنا بھی آسان نہیں ہے مگر اپنی میں ایک مسلمان کی رائے دوسرے سے مختلف ہے۔ آخر کیوں؟ اللہ ہمیں آنیوالے دور میں گندے مچھلیوں کی شر سے بچائے۔ آمین