Site icon Chitral Today

عذاب جاریہ یا صدقہ جاریہ

Chitral Today articles
گل عدن چترال
(نوٹ: یہ تحریر میں خاص طور پر محترم اساتذہ کرام اور والدین کے نام کرتی ہوں کیونکہ ہماری تربیت میں سب سے اہم کردار ہماری والدین کا اور اساتذہ کا ہوتا ہے)۔
رمضان ہو یا عید یا کوئی بھی خاص موقع بچھڑے ہوئے اپنوں کی یاد شدت سے آتی ہے چاہے یادیں کتنی ہی پرانی ہوتی جائیں۔ ایسے ہی ہمارے ایک عزیز بھائی جو پچھلے سال رمضان میں ہمارے ساتھ تھے اب بحکم اللہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو ان کی یاد کے ساتھ ساتھ ان پر رشک بھی آرہا ہے۔ رشک آنے کی کہیں وجوہات ہیں میرے پاس وہ حافظ قرآن تو تھے ہی معلم بھی رہ چکے تھے ایک اچھے بیٹے، بھائی ایک اچھے مسلمان کی تقریبا تمام صفات ان میں موجود تھیں۔ وہ، انکے باقی بہن بھائی، اللہ انہیں سلامت رکھے اور انکی تربیت کرنے والے عظیم ہستیاں یعنی انکے والدین ہمیشہ سے میرے آئیڈیل لسٹ میں ہیں۔
خیر جس بھائی کا میں ذکر کر ہی تھی، انکی ایک خاصیت رمضان کے متعلق تھی۔ جب تک انکی زندگی رہی انکا ایک معمول تھا کے وہ عام دنوں میں بھی مگر خاص طور پر رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے عزیز مرحومین کو ایصال ثواب پہنچانے کی غرض سے ختم قرآن کا خاص اہتمام فرماتے تھے یوں رمضان کے اختتام تک وہ نجانے کتنی بار قرآن ختم کرتے تھے نجانے کتنے مرحومین  کو انکے طرف سے تحفہ پہنچتا تھا دعاؤں کا، یوں وہ حافظ ہونے کا حق بھی ادا کرتے تھے اور اچھی تربیت کا ثبوت بھی بنتے تھے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔
یہاں انکا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ صدقہ جاریہ کے بارے میں ہمیں رٹایا جاتا رہا ہے کہ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ مسجد بنانا، کہیں پانی کا انتظام کرنا، کنواں بنوانا وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ سب یقینا صدقہ جاریہ کے ضمن میں آتے ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر اللہ کا دیا ہوا مال خرچ کرکے آپ اپنے لئے صدقہ جاریہ کا انتظام کرسکتے ہیں تو اولاد بھی تو اللہ کی عطا ہے جسے آزمائش قرار دیا گیا ہے تو آدمی کا حق نہیں بنتا کہ اسکی اولاد اسکے لئے اولین صدقہ جاریہ بنے؟ صرف مال ہی کیوں؟ ہمیں ہزاروں بار بتایا جاتا ہے اور یہ عین حقیقت بھی ہے کہ جو اولاد والدین کی عزت اور فرماں برداری نہیں کرتے انکی بد دعائیں لیتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی اسکی سزا پاتے ہیں اور آخر ت میں بھی عذاب و رسوائی انکا مقدر ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے والدین کو اتنا اونچا درجہ عطا فرمایا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا والدین کو اونچا مقام صرف اولاد کو پالنے کے لئے عطا کیا گیا ہے؟ کیا اولاد کو صرف سہولیات فراہم کرنے کی بنیاد پر والدین اعلی مقام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یقینا نہیں۔
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو جو حال ایک نافرمان اولاد کا ہوتا ہے وہی حالات ان والدین کے بھی ہوتے ہیں جو اولاد کی تربیت کو اہمیت نہیں دیتے۔ایسے والدین اپنی نافرمان بدتمیز اور خود سر اولاد کے ہاتھوں دنیا میں کتنا غم اٹھاتے ہیں ہم سبکو نظر آتا ہے۔پھر جو والدین دنیا میں اپنے ہی اولاد کے ہاتھوں غمگین رہتے ہوں تو ایسی اولاد قبر میں آپکو کونسا ثواب پہنچائے گی؟اس دنیا کا حساب تو ہمیں نہیں پتہ لیکن اندازا ہم کہ سکتے ہیں کہ جو اولاد دنیا میں چین و سکون کا سبب نہ بن سکی وہ اولاد مرنے کے بعد بھی آپکو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی۔
نجانے آج کتنے لوگ ہیں جو اس دنیا سے جاچکے ہیں، ان پر اعمال کا دروازہ بند ہوچکا ہے کیا یہی کم عذاب ہے کہ دنیا سے انکی اولاد انکے حق میں صدقہ جاریہ بننے کے بجائے عذاب جاریہ بنے  قبر میں  عذاب کا  تحفہ بھیج رہے ہیں۔ بد قسمتی کی انتہا ہے کے قبر کی سختیوں میں اضافہ کا سبب بننے والے اگر آپکے اپنے ہی اولاد ہوں۔ لیکن ایسے بھی خوش نصیب ہیں جنہیں روز نیک اولاد کی طرف سے راحت نصیب ہورہی ہے جو قبر میں بھی اپنی اولاد کی طرف سے خوش اور مطمئن ہیں اور یقینا یہی لوگ اللہ کی آزمائشیوں میں پورے اترے ہیں۔۔ وہ تمام مسلمان جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے اب تک  دنیا سے جا چکے ہیں ہمارے مسلمان آباؤاجداد انکے حال پر  اللہ رحم فرمائے ان طاق راتوں میں یہ دعا ضرور کیجئے گا کیوں کہ  ہم انکے خوش قسمتی اور بدقسمتی کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ ہم نہیں جانتے کہ اندھیری قبروں میں کسی پر کیا گزر رہی ہے ۔لیکن جو لوگ حیات ہیں اور آج والدین کے مرتبہ پر فائز ہیں وہ اپنی خوش قسمتی یا بدقسمتی کا فیصلہ آج اپنی زندگی میں کرسکتے ہیں۔ یہ تسلیم کرکے کہ اولاد کھلونا نہیں ہوتی نہ ہی اولاد کی تربیت کوئی کھیل تماشہ ہوتی ہے۔ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی خاطر ماں اور باپ دونوں کو سب سے پہلے یہ حقیقت تسلیم کرلینا چاہئے کہ اولاد صرف دل بہلانے کا سامان نہیں ہوتی۔بلکہ اولاد کی تربیت ایک بھاری ذمہ داری ہوتی ہے جسے ادا کرنے کے لئے والدین کو  ایک دوسرے کی عزت کرنی پڑتی ہے،ایک دوسرے کو برداشت کرنا پڑتا ہے، ایک دوسرے کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔۔ چھوٹی بڑی ہر آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر ایسی اولاد نصیب ہوتی ہے جو دنیا میں بھی راحت کا سبب بنے اور آخرت میں بھی کامیابی کا صنعت بن سکے۔یاد رکھیں جیسا اولاد دنیا میں چھوڑ کر جائیں گے ویسا ہی صلہ پائیں گے۔جھوٹے دھوکہ باز بے رحم  بے ایمان، ظالم، رشوت خور،بد اخلاق اور بخیل اولاد آپکی بخشش اور نجات کا ذریعہ نہیں بن سکے گی ۔اولاد کے نام پر متکبر مجسمے آپکے صدقہ جاریہ نہیں بلکہ عذاب جاریہ بنیں گی ۔جسکی سزا تا قیامت بھگتنی پڑے گی۔آئیں سوچتے ہیں کہ آیا ہم اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ بن رہے ہیں یا نہیں؟اور فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی اولاد کو اپنے لئے صدقہ جاریہ بنانا ہے یا عذاب جاریہ۔۔ فیصلہ سب کا اپنا۔
Exit mobile version