پشاور شہر میں1800 پرانے گھر
داد بیداد
محکمہ آثار قدیمہ کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں ایک سروے کا حوالہ دیکر دعویٰ کیا گیا ہے کہ پشاور شہر میں 1800پرانے گھر ایسے ہیں جن کو آثار قدیمہ کی فہرست میں ڈال کر عالمی ورثہ قرار دیا جا سکتا ہے یہ سروے 2018 میں ہو اتھا گذشتہ 5سالوں میں اس کام پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بقول شاعر ’’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘‘ یعنی جملہ معترضہ یہ ہے کہ صوبے میں آثار قدیمہ کے تحفظ کے لئے اب تک کوئی اتھارٹی یا نگران ادارہ بنا نے کی طرف تو جہ نہیں دی گئی
اس جملے کے بعد ما لی وسائل کی کمی کا ذکر آیا ہے اور ما لی وسائل کی کمی کے حوالے سے ایک بارپھر 40سال پرانی بات دہرائی گئی ہے کہ پشاور شہر میں بر صغیر کے دو مشہور اداکاروں دلیپ کما ر اور راج کپور کے گھر وں کو محفوظ کر کے عجا ئب گھر بنا نے کی دیرینہ ارزو پوری نہیں ہو ئی پوری کیا ہو تی اس پر کا م ہی شروع نہیں ہوا ہم تھوڑا ساوقت نکا ل کر غور کریں تو پشاور شہر کے 101مسائل میں سے یہ بھی ایک مسئلہ ہے دنیا کے قدیم شہروں کی ایک نمایاں نشانی ان کی فصیل یا دیوار ہو تی ہے دیوار کے ساتھ دروازوں کا ذکر آتا ہے اور شہر کے اہم حصے دروازوں کے نا موں سے پہچا نے جا تے ہیں پشاور شہر کی فصیل بھی ہے اس کے مشہور دروازے بھی ہیں سچ پو چھئیے تو اکثر دروازے اکھڑ گئے نا بود ہوئے صرف نا م با قی ہیں فصیل شہر بھی پلا زے بنا نے والے کا روباری طبقے کی زد میں ہے ایک زما نے میں چوک یا د گار کی بحا لی اور تزئین وارائش کا بڑا ذکر ہوا مگر اس کا حال پہلے سے بد تر ہے تحصیل گور کٹھڑی کی بحا لی اور سجا وٹ کا شور و غا بلند ہوا پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی
ابھی سات سال پہلے کی بات ہے پشاور ہیری ٹیج ٹریل کا نا م آیا اس پر کام شروع ہوا مگر بر سر زمین حقیقت یہ ہے کہ اس کو کسی بد خواہ کی نظر لگ گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیری ٹیج ٹریل اب خراب حا لت میں ہے بتا یا گیا ہے کہ زیا دہ تر لو گوں نے این اوسی لیکر اپنے مکا نا ت کے ڈھا نچوں میں تبدیل کی ہے یا سجا وٹ کا کام کیا ہے حالانکہ یہ مخصوص مہا رت رکھنے والوں کا کا م ہے اور محکمہ آثار قدیمہ کا مینڈیٹ ہے نیز شہر کو سیا حوں کے لئے کھو لنے سے پہلے ٹریفک اور بجلی کے مسائل کو حل کر نے کی ضرورت ہے اور تجا وز ات کو ہٹا نے کا مسئلہ بھی درپیش ہے رپورٹ میں بتا یا گیا کہ شہر کی ایک مسجد اور 5مزارات کو محکمہ اوقاف کے حوالے کیا گیا ہے تا ہم ان کی بحا لی کے لئے فنڈ دستیاب نہیں ہیں مسجد مہا بت خان کی تزئین اور بحالی کا کام 15سالوں میں پورا نہ ہو سکا مسجد کی 46دکا نوں میں سے صرف 4دکا نیں محکمہ اوقاف کو مل چکی ہیں 42دکا نوں پر نا جا ئز قابضین کا قبضہ ہے واقف حال لو گوں کا کہنا ہے کہ قابضین کے قبضے سے چھڑا ئے گئے دکانوں کی بحا لی پر بھی کوئی کا م نہیں ہوا
جاری کر دہ رپورٹ میں مستقبل کے لاءحہ عمل کی ایک جھلک بھی دکھا ئی گئی ہے اس کی رو سے ڈائر یکٹر ارکیا لو جی 1800پرا نے گھروں کی درست نشان دہی والی فہرست جا ری کرینگے لو کل گورنمنٹ کی طرف سے این اوسی جا ری کیا جائے گا ضلعی انتظا میہ اندرون شہر صفا ئی ستھرائی پر تو جہ دے گی رحمان با با کے مزار کی سفیدی کی جائیگی شہر کے تاریخی دروازوں پر لگے ہوئے بینر ہٹائے جائینگے اور فصیل شہر کو وال چاکنگ سے پا ک کیا جائے گا اس لا ءحہ عمل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب تک کوئی بنیا دی کا م نہیں ہوا یہاں آثا ر قدیمہ کے تحفظ کے بارے میں چین، فرانس، ایران، مصر، بھارت اور روس کی مثال دینا شا ید منا سب نہ ہو نیپا ل کی مثال کا فی ہو گی، سیاسی، معا شی اور معا شرتی لحا ظ سے نیپا ل خیبر پختونخوا کے لئے مثا ل بن سکتی ہے جہاں آثار قدیمہ کے تحفظ اور سیا حت کے فروغ پر قابل قدر کا م ہوا ہے
وطن عزیز پا کستان میں لاہور کے پرا نے شہر میں آثار قدیمہ کی بحا لی اور تزئین آرائش کا مثا لی کام ہوا ہے یونیسکو کے ساتھ آغا خان ٹر سٹ فار کلچر کے ما ہرین دن رات کا م کر رہے ہیں مسجد وزیر خان اور شا ہی حما م کو تجاوزات سے آزاد کر کے مکمل طور پر بحا ل کیا گیا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ 20سالوں میں 4حکومتیں تبدیل ہوئیں آثار قدیمہ کی بحا لی کاکام متا ثرنہیں ہوا خیبر پختونخوا میں سیا سی بلو غت کی کمی نہیں تاہم پا لیسی کا فقدان ہے تر جیحات غلط ہیں اس لئے شہر کے تاریخی آثار مٹ رہے ہیں 1800قدیم عمار توں کو سیا حوں کے لئے کھو لا گیا تو پشاور شہر کی تاریخی حیثیت بحا ل ہو گی اور سیا حت کے ذریعے حکومت اور عوام کے لئے نقد آمد نی میں تبدیل ہو جا ئیگی۔