مسٹر بھٹو کی پی پی پی کے ہاتھوں آئینی اقدار کی پامالی
سرور کمال
جب میں یہ سطور لکھ رہا تھا اچانک رات گئے یعنی یوم پاکستان کی شب مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین نے ملک کے طول و عرض سے حاصل کیے گئے شہادتوں کی بنیاد پر رمضان المبارک کی آمد کا اعلان کیا۔
بدقسمتی سے اسی رات یوم پاکستان کی شب جمہوری لبادے میں چھپے برسراقتدار ٹولے نے آئین پاکستان کی چاند کو زبردستی لوگوں کے آنکھوں پر مرچیں ڈال کر ان کے نظروں سے اوجھل کیا. آئین پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات کے باوجود مسند اقتدار پر قابض ٹو لے نے پنجاب اور صوبہ سرحد میں انتخابات کے امکانات کو یکسر مسترد کیا. حکومت کی طرف سے انتہائی واحیات اور فضول بہاروں کا سہارا لیا گیا. ایک طرح سے پی ڈی ایم ای شکن اور توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہے. بظاہر اس عمل سے پی ڈی ایم عمران خان سے شدید خوفزدہ ہیں. پاکستان میں شاہد ہی کوئی لیڈر حکومت ہاتھ سے جانے کے باوجود عوامی مقبولیت کے اس معراج پر فائز ہو جس پر عمران خان ہیں۔ آج کل عوام کی واضح اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے. انسان جب مایوسی خوف اور بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس طرح کی احمقانہ اور بزدلانہ حرکت کا مرتکب ہوتا ہے. پی ڈی ایم اے میں شامل مسلم لیگ نون کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں. ان کی جمہوری اقدار کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے. اس جماعت کو غیر جمہوری قوتوں نے پالا پوسا اور پھر ان کو لانچ کیا. سابق مرحوم صدر رفیق تارڑ کو پیسوں سے بھرا سوٹ کیس دے کر کوئٹہ روانہ کیا گیا ججوں کو خریدنے کیلئے اسی طرح اس جماعت کی طرف سے سپریم کورٹ پر حملہ ایک آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
میڈیا کو دھونس دھمکی اور دولت کی چمک کے ذریعے اپنے حق میں موڑنے کا فن ان کو خوب آتا ہے جس کی مثال آج کل ہمارے سامنے ہیں کیونکہ آجکل کوئی مہنگائی کے بارے میں باتیں نہیں کرتا جبکہ لوگ آجکل آٹے کے لیے لائنوں میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں میرے نزدیک اس جماعت کا کردار کسی مافیا سے کم نہیں ہے۔
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پارٹی مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی اگرچہ مسٹر بھٹو بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر کی کابینہ اور ٹیم کا اہم رکن رہے ہیں لیکن بعد میں ان کی سیاست نے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مسٹر بھٹو کو عوام دوست اور غیر جمہوری قوتوں کے سامنے مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
شہید بھٹو کی شدید ناقدین اور مخالفین بھی ان پر مالیاتی اسکینڈل کا الزام نہیں لگا سکتے ہیں. تاریخ انہیں بدعنوان رہنما کے طور پر کبھی بھی یاد نہیں رکھتا ہے. شہید بھٹو اور ان کی جماعت کے رہنما اور ورکروں نے جمہوری اقدار کی سربلندی کے لیے شدید ریاستی جبر و تشدد کو برداشت کیا مگر اپنے آپ کو غیر جمہوری عناصر کے سامنے سرنڈر کبھی بھی نہیں کیا. موجودہ متفقہ آئین کا بھی سارا کریڈٹ مسٹر بھٹو کو جاتا ہے۔
ان کی شہادت کے بعد ان جمہوری اقدار کے ورثے کو ان کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی اپنی بساط کے تحت کسی حد تک نبھانے کی اچھی کوشش کی. یکایک حالات نے پلٹا کھایا اور محترمہ کی شہادت کے بعد اس پارٹی کی ذمہ واری آصف علی زرداری کے کاندھوں پر آ گئی اور وہ اس پارٹی کے سفید و سیاہ کے مالک بن گئے. اس پارٹی کو وفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کے چاہنے والے اور ہمدرد پاکستان کشمیر اور گلگت بلوچستان کے طول و عرض میں پائے جاتے تھے. محترمہ کی شہادت کے بعد اس پارٹی کو بہت تیزی سے شکست و ریخت سے دوچار ہونا پڑا. حکومتی بد انتظامی اور مالیاتی اسکینڈلز کی وجہ سے اس پارٹی کو بہت نقصان پہنچا۔ ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ بھٹو کی میراث پاکستان پیپلز پارٹی کو غیر جام پوری قوتوں نے تشدد اور مختلف ہتھکنڈوں سے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا آصف علی زرداری کی مفاد پرستانہ اور اور پاور پولیٹیکس نے اس کو نقصان پہنچایا۔
عجیب طرف تماشہ ہے کہ ایک طرف ہم بھٹو کو متفقہ آئین کے لئے اس کریڈٹ دیتے ہیں تو دوسری طرف اسی کی پارٹی آج کل اپنی ذاتی مفاد کے لیے این شکنی کا مرتکب ہو رہے ہیں. اس دور حکومت میں مخالف آوازوں کو دبانے کے لئے انتہائی غلط ہتھکنڈوں کا استعمال کیا گیا. پیپلز پارٹی اس حکومت کی پارٹ اینڈ پارسلے اور وہ بھی ان جرائم میں برابر کی شریک . سب سے بڑھ کر آئین میں واضح درج90 دنوں کے اندر انتخابات کا انعقاد کرایا جائے. اس سے رو گردانی آئین شکنی اور اور آئین سے کھلواڑ کے مترادف. انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے پر مصطفی نواز کھوکھر کو پارٹی سے فارغ کر دیا گیا. آجکل پیپلزپارٹی جمہوری اقدار کی پامالی کے سلسلے میں مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کر رہا ہے. ان واقعات اور اقدامات کے بعد پیپلز پارٹی پر بہت سوالات کھڑے ہوگئےہیں۔
Its a press release of PTI more than an article nothing new information here for the readers.