قوموں کے تین اصول

1

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ہمزاد میرا نقاد بھی ہے دوست بھی اور ہم راز و دمساز بھی ہے آج ہمزاد نے کہا قوموں کے عروج و زوال پر لکھو میں نے کہا کس کو مخاطب کروں گا کون پڑھے گا وہ بولا مجھے مخاطب کرو مجھے سمجھاو مجھے بتاو قوموں کے عروج و زوال کی کیا کہانی ہے کیا وجوہات ہیں میں نے کہا اخبار میرے اور آپ کے لئے نہیں چھپتا اس کے لاکھوں قارئین ہیں جن کی دلچسپی پیاز، ٹماٹر کے نرخوں میں ہے عدالتوں سے آنے والے احکا مات میں ہے نگرانوں کی نگرانی میں بھی وہ دلچسپی رکھتے ہیں نگہبانوں کی نگہبانی پر وہ کچھ لکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں قارئین کے سامنے قوم سے زیادہ شہری کے مسائل ہوتے ہیں وہ جا ننا چاہتے ہیں کہ مزدور نے کیوں خود کشی کی ماں نے 4بچوں کو لیکر دریا میں کس وجہ سے چھلانگ لگائی، بھائی نے سگے بھائی کو کس لئے قتل کیا وطن چھوڑ کر چور راستوں سے پر دیس جانے والوں کی کشتی کیوں الٹ گئی ایک انجینئر نے بے روز گاری سے تنگ آکر پکوڑوں کی ریڑھی کیوں لگائی کمسن لڑکے نےعدالت کے اندر اپنے باپ کے قاتل کو کس و جہ سے گو لی ماری

یہ عوام کے مسا ئل ہیں قارئین کی دلچسپی ان مسا ئل میں ہے ہمارے قارئین یہ جا ننا نہیں چا ہتے کہ چین نے کیوں تر قی کی شمالی کوریا کو کیسے زوال آیا، سنگا پور نے کس طرح ترقی کی یا میا نمر کس وجہ سے برباد ہوا یہ تاریخ اور فلسفہ کی با تیں ہیں آئین اور سیا ست کی گتھیاں ہیں عوام ان چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے ہمزاد نے کہا حکمرا نوں کے لئے لکھو میں نے کہا حکمران اخبار نہیں پڑھتے تنگ آکر ہمزاد بولا ہوا میں تیر چلاءو، خیالی پلا ءو پکاو مگر کچھ نہ کچھ ضرور لکھو، میں نے سوچا ماوزے تنگ اور چواین لائی سے شروع کروں یا مہا تیر محمد اور نیلسن منڈیلا کا تذکرہ کروںمجھے یاد آیا شارٹ کٹ لینا بہتر ہے سنگا پور اور لی کوان یو کا قصہ لکھ کر بات کو ختم کیا جا ئے تو قو موں کے عروج کا راز فاش ہو جائے گا 1959ء میں سنگا پور ایک ساحلی شہر تھا سمگلروں اور بردہ فروشوں کی اماجگا ہ تھا، ناکامی، برائی اور غر بت وا فلاس کی کہا نیاں سنگا پور سے نسبت رکھتی تھیں بے روز گاری سنگا پور کی پہچان تھی لی کوان یونے 1959اور1990کے درمیان 31سالوں میں سنگا پور کو ایک غر بت زدہ شہر کی جگہ ایک ترقی یا فتہ ملک اور ایک طا قتور قوم کا فخر بنا یا یہ کما ل کیسے ہوا

ایک انٹرویو میں لی کوان یو نے اس کے تین رہنما اصول افشا کئے انہوں نے کہا قوم کا سر بلند کر نے کے لئے میرٹ، عملیت پسند ی اور دیا نت داری کے اصولوں پر چلنا پڑتا ہے حکمران کو چا ہئیے کہ دوست، احباب، اقرباء، رشتہ دار، گھربار، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں، بیٹی، داماد وغیرہ کو حکومت کے قریب آنے نہ دے حکومت جو لو گ چلا ئیں وہ میرٹ پر قابلیت کی بنیاد پر منتخب کئے جا ئیں ان کے ہا تھوں جو کا م ہو گا وہ اعلیٰ معیار کا کا م ہو گا قوم کے مستقبل کو سنوار نے والا کا م ہو گا دوسرے نمبر پر عملیت پسندی ہے جس کو انگریزی میں پریگمیٹنزم کہا جا تا ہے اس کا آسان نمو نہ یہ ہے کہ حکمران لمبی نہ چھوڑے، شیخ چلی کے منصو بے نہ بنائے وہ بات کرے جو زمین پر قابل عمل ہو سامنے نظر آنے والا کام ہو اس کو کہتے ہیں الفاظ کی جگہ اعمال پر زور دو

قومی حکومت کو پہلے عملی کام شروع کرنا چاہئیے کام ہونے کے بعد اس کا ذکر ہوگا حکمران کو خود بو لنے کی ضرورت نہیں ہوگی لو گ خود بو لینگے یہ عملیت پسند ی ہے تیسرا بڑا اصول دیا نت داری ہے حکمران خود دیانت داری سے کام لے میرٹ پر آنے والے حکام یقینا دیا نت دار ہو نگے اور عملیت پسندی کے تحت کام کرنے والے لوگ بھی دیا نت داری کا مظا ہرہ کرینگے، تینوں اصول یکجا ہوجائیں تو قوم کو عروج حاصل ہو گا سنگاپور کے اندرلی کوان یو سکول آف پبلک پا لیسی میں ان اصو لوں کی تعلیم دی جا تی ہے اس پر ڈگریاں دی جا تی ہیں انٹر ویوں میں لی کوان یو نے بتایا کہ چچا، ماموں، بیٹی، بیٹا، بھا ئی اور داماد وغیرہ حکومت میں مداخلت کریں تو قوم تباہ ہو جاتی ہے، حکمران جب شیخ چلی کے منصو بے بنا تے ہیں تو قوم بر باد ہو جاتی ہے حکمران اگر دیانت دار نہ ہو ں تو قومی دولت ضاع ہو جاتی ہے اور قوم کوڑی کو ڑی کا محتاج ہوجاتا ہے میرے ہمزاد نے کہانی سنی تو اس نے بھی لی کوان یو سے اتفاق کیا۔

1 Comment
  1. شیر ولی خان اسیر says

    جہاں کی سیاست میں یہ تینوں زرین اصول ناپید ہوں تو وہاں دانشوروں کی تحریر و تقریر کا کیا اثر ہوگا ۔پھر بھی مصلحین کو اپنی کوششیں جاری رہنی چاہیں

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!