Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

پرائمیری سکول

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
وطن عزیز کے میدانی اور پہاڑی اضلاع کے اندر دور دراز مقا مات پر واقع الگ تھلک دیہات میں پاکستان کی نشانی اور حکومت کی واحد علامت کو پرائمیری سکول کہتے ہیں اس کی ٹوٹی پھوٹی عمارت پر پا کستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا تا ہے اور اس کی گری پڑی چار دیواری کے اندر صبح کی اسمبلی میں پا کستان کا قومی ترانہ بلاناغہ گایا جاتا ہے

پرچم ستارہ و ہلا ل رہبر تر قی و کما ل اس کے سوا حکومت کا کوئی ایسا دفتر نہیں جو ہر گاوں میں نظر آتا ہو اور جس پر وطن عزیز کا پر چم لہراتا ہو اور جہاں ہر روزوطن کے قورمی ترانے کی آوز گونچتی ہے مو سم بہار کی دستک کے ساتھ میرے دوستوں کے سر پر ایک خبط اور سودا سوار ہوا کہ اپنے اپنے بچپن کے پرائمیری سکول کو ایک بار پھر دیکھیں ہم زاد راہ لیکر روانہ ہوئے اور باری باری ہر ایک کے پرائمیری سکول میں کچھ وقت گذارا جو ہر لحاظ سے یاد گار ثابت ہوا تاہم مقطع میں سخن گسترانہ بات کی گنجا ئش یو ں نکل آئی کہ 5دوستوں کے پا نچوں سکول 60سال پہلے کی حا لت سے کئی گنا بُرے حال میں تھے حا لانکہ اکیسویں صدی میں ہر سکول کو بیسویں صدی سے بہتر حالت میں ہونا چا ہئیے تھا اور ہماری توقع بھی یہی تھی ہمارے دوستوں کے 3سکول پشاور، نو شہرہ اور مر دان میں تھے 2سکول سوات اور چترال میں تھے

ہم نے دیکھا کہ 60سال پہلے بنیا دی ڈھا نچہ بہتر تھا، نصاب تعلیم اچھا تھا، کتا بیں معیا ری تھیں اسا تذہ کی تعداد بھی مضا مین اور طلبہ کے اعتبار سے آج کے مقا بلے میں بہتر تھی 60سال پہلے سابق ریا ست سوات اور چترال میں پرائمیری سکول کی 5جما عتوں کے لئے 6کمرے ہو تے تھے اسلا میا ت ، خوش خطی ، نا ظرہ قران مجید اور دینیات کے لئے قاری اور معلم استادمقرر تھا ، اردو ، ریا ضی اور مطا لعہ قدرت کے لئے جے وی استاد ہوا کر تا تھا میدانی اضلا ع میں 4سے لیکر 10کمرے تک ہوا کر تے تھے جما عتوں کے سیکشن ہو تے تھے ہر سیکشن کا الگ استاد ہو تاتھا جو عبارت خوانی، تر جمہ، خو ش خطی سب کچھ پڑھا تا تھا، ہر بچے کو سنتا تھا اور ہر بچے کو انفرا دی تو جہ دیتا تھا داخلہ کے وقت باپ، دادا، چچا یا بھا ئی بچے کو لیکر سکول آ تا تھا بچیوں کے سکول میں مائیں خو د آتی تھیں داخلہ فارم پُر کروا کر دستخط یا انگو ٹھا لگاتی تھیں

تعلیمی سال کے دوران بچوں اور بچیوں کے والدین ہر دوسرے ماہ سکول آتے تھے اساتذہ کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے اکیسویں صدی کا پرائمیری سکول ایسا نہیں رہا اب 2کمروں کو سکول کہا جا تا ہے ان دو کمروں میں 5جما عتوں کو 10مضا مین پڑھا ئے جا تے ہیں کمرے کے ایک کو نے میں انگریزی کا سبق ہے تو دوسرے کو نے میں اردو اور چوتھے کونے میں اسلا میات کا سبق چل رہا ہو تا ہے کا ن پڑی آواز سنا ئی نہیں دیتی اساتذہ کی تعداد بھی مقرر نہیں ایک سال اگر 3اسا تذہ دیئے گئے تو اگلے سال ایک استاد رہ جا تا ہے داخلہ کے وقت بچے یا بچی کے ساتھ خا ندان کا کوئی فرد بھی سکول نہیں آتا استاد کو دوسرے بچوں اور بچیوں سے پو چھ کر طا لب علم کا نا م اور باپ کا نام لکھنا پڑ تا ہے تاریخ پیدائش اندازہ یا تخمینہ اور تکا لگا کر لکھی جا تی ہے 2سال یا 3سال بعد بچہ یا بچی کی قابلیت سامنے آئے تو اس کو سر کاری سکول سے اٹھا کر پرائیویٹ سکول کا راستہ دکھا یا جا تا ہے گو یا قابل طا لب علم پر سر کاری سکول کا کوئی حق نہیں

پرائمیری سکول میں اگر 80طلبہ کے لئے دو اسا تذہ ہو تے ہیں تو مڈل سکول اور ہا ئی سکول میں 75طلبہ کے لئے 15سے لیکر 23اسا تذہ دیئے جا تے ہیں بعض سکول ایسے بھی ہو تے ہیں جہاں 52طلبہ کو 27اسا تذہ پڑھا تے ہیں معا ئینہ کر نے والے حکا م ، ما نیٹر وغیرہ مقدار کو بھی نہیں دیکھتے معیار کو بھی نہیں دیکھتے، گو شوا روں اور سا لا نہ رپورٹوں میں صرف مقدار کو دکھا یا جا تا ہے معیار کو پر کھنے اور ظا ہر کر نے کا کوئی سسٹم نہیں ترقی یا فتہ مما لک نے پرائمیر تعلیم کو ساتویں جماعت تک تو سیع دی ہے اس طرح پرائمیری تعلیم کو بنیا دی تعلیم یا ایلمنٹری ایجو کیشن کا نا م دیا ہے

اگر مستقبل کی کسی حکومت نے وطن عزیز میں پرائمیری تعلیم کو مڈل کے ساتھ ضم کر دیا تو اسا تذہ اور کمروں کا مسئلہ بھی حل ہو جا ئے گا ابتدائی تعلیم کے مر حلے میں طلبہ پر انفرادی تو جہ دی جا ئے گی اور 60سال پہلے کا معیار واپس آجا ئے گا جب مضا مین کم تھے مگر معیار بہت اونچا تھا شیخ سعدی کا شعر ہے خشت اول چوں نہد معمار کج تاثریا می روددیوار کج ہمارے استاد کہا کر تے ہیں کہ شاعر کو فن تعمیر کا تجربہ نہیں تھا ورنہ وہ کہتا ’’تاثر یا نہ رود دیوار کج‘‘ پہلی اینٹ غلط ہو تو دیوار اُٹھ ہی نہیں سکتی ثریا تک کیسے جا ئیگی پرائمیری سکول ہمارے نظا م تعلیم کی پہلی اینٹ ہے آنے والی حکومتیں اس کو بہتر نہیں کر سکتیں تو کم از کم 60سال پہلے والے معیار پر لاکر قوم پر احسان کریں۔

You might also like
3 Comments
  1. Mari says

    It needs big heart with data to prove Dr Sb wrong. Any ways I agree what Dr sb has written about the quality. Quantity could have gone up but surely quality has gone down. There is no need to be defencive. We should put things right. We should be thankful that without any remuneration Dr Sb has shared his personal thoughts with facts and figures, otherwise it needs a big projects to collects such data.

    1. حق گو says

      اس میں بڑے دل کی بات ضرور ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جو بھی ذہن میں آیی لکھ ڈالی۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کی ڈاکٹر صاحب کونسے ڈیٹا کے مطابق یہ دعوی کیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بعض علاقے میں اگر معیار گر چکا ہے تو زیادہ تر سکولوں میں معیار بیتر ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے کہہ دین کہ حقیقت پر مبنی لکھیں اور اس کے ذاتی سوچ اور خیالات حقایق نہیں ہوسکتے

  2. حق گو says

    ریکارڈ کی درستگی ضروری ہے
    آج پورے صوبے میں کوئی بھی پرائمیری سکول ٹوٹی پھوٹی نہیں اور سکول کی چاردیواری بھی گری نہیں ہوتی۔
    پہلے زمانے میں پرائمیری سکول کا ایک کمرہ ہوتا تھا اور بمشکل ایک استاد۔ آج کے پرائمیری سکول میں جہان بھی گنجائش موجود تھا وہاں تین سے چھ تک کمرے موجود ہیں۔
    اب ہرسکول میں دو اور تعداد کے مطابق 6تک استاد موجود ہیں۔اگلے سال کہیں بھی ایک استاد نہیں رہتا بلکہ نئے لوگ بھرتی ہوکر زیادہ ہو جاتے ہیں۔
    چترال کے اکثر لوگ تعلیم کی اہمیت اور ضرورت سے خبردار ہیں اوروہ سکول کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں۔
    سکول معائنہ کرنے والے مقدار کوبھی دیکھ لیتےہیں اور معیار کوبھی ، اور ساتھ بہتری پر کام بھی کرتے ہیں۔
    محترم ڈاکٹر صاحب اگر لکھنا چاہتے ہیں تو حقیقت پر مبنی ہو باتون کا بتنگڑ نہ بنائیں اور یہ غیر ضروری تڑکہ لگانے کر حکومتی ادارون کے بارے میں خوفناک جھوٹ اور حقیقت سے بالاتر بات نہ لکھین۔ شکریہ

Leave a comment

error: Content is protected!!