پشاور اور کوالامپور
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
پشاور نے وسطی ایشیاء سے آنے سپہ سالاروں اور یورپ سے آنے والے تحقیق کاروں کو بھی متاثر کیا مگر سب سے زیادہ پشاور کے باسیوں کو متاثر کیا جوہر میر امریکہ جاکر بس گئے پشاور کو نہ بھلا سکے عتیق صدیقی، ڈاکٹر سید امجد حسین اور ڈاکٹر الف خان سے لیکر افراز علی سید تک لمبی فہرست ہے جو پشاور سے دور پشاور کو یاد کرنے والوں کی یاد دلاتی ہے۔
انہی میں سے افتاب اقبال بانو بھی ہے جو کینیڈا اور دنیا بھر کی سیاحت میں پشاور کو نہیں بھولتی کوالا لمپور میں بھی اُن کو پشاورکی یاد ستاتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے پشاو ر کے قدیم تاریخی شہر کا باسی جب کسی نئے شہر کو عروس البلاد بنتے دیکھے تو پشاور کی یاد ضرور ستائیگی پشاور سے اٹھ کر دنیا جہاں میں نام کمانے والی آفتاب اقبال بانو کا حال ایسا ہی ہے اُن کی کہانیوں میں بھی پشاور کا رنگ ہے اُن کے سفر ناموں میں بھی پشاور کی جھلک ہے۔
ملائشیاکتنا حسین اُن کا سفر نامہ ہے مصنفہ نے سیاحوں کے گروپ میں ملائیشیا کی سیاحت کی جب اس سیاحت کی روداد لکھی تو میزبان ملک کے ہارڈ ویئر یعنی جغرافیائی ماحوں کے ساتھ اس کے سافٹ ویئر یعنی سماجی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا بھی احا طہ کیا اور اس طرح سفر نامہ کے اندر تاریخ و ثقافت کا حسین گلدستہ رکھ دیا شاپنگ مال میں کپڑے کی ایک دکان پر اُن کو پشاو ر یاد آیا ۔ تو مجھے ایسا لگا جیسے وہ پوری دکان کی خریداری میں لگ جائینگی لیکن انہوں نے خریداری اور بھاؤ تاؤ سے ہاتھ کھینچ کر دکان سے باہر آگئیں سفر نامہ نگار کی حیثیت سے آفتاب اقبال بانو کا اسلوب سب سے جدا ہے اُن کے ہاں خیالی منظر نامے نہیں ہیں ، بناوٹی کہانیاں نہیں نثر کو وزنی بنانے کے لیے محاوروں ، مقولوں اور اشعار کی بھرتی بھی نہیں ہے جس طرح سفر کرتی ہیں جو دیکھتی ہیں اُسے سادہ الفاظ میں روان نثر میں دلنشین پیرا یہ اختیار کرکے لکھتی ہیں۔
مثلاً کوالالمپور میں نیشنل مسجد دیکھنے گئی تو اس سفر کا حال یوں بیان کیا ہمارے گروپ کے چند لوگوں نے مسجد میں نفل پڑھے اور ظہر کی نماز ادا کی قرآن پڑھنے والے اور سیکھنے والے ملایئشین بچوں کی مسجد میں بہت بڑی تعداد موجود ہے اس میں لڑکیاں بھی عبایا اور حجاب پہنے ہوئے شامل ہیں۔ مسجد میں بچوں کے قرآن سیکھنے کا عمل اور اُن کی آوازیں بہت ہی خوش کن ماحول پیدا کر رہی ہیں، مصنفہ نے نہایت اختصار اور خوب صورتی کے ساتھ ملا ئیشیاء کے طرز حکومت اور جدید طرقی اورمتضاد زاویوں کا ذکر کرتی ہے، مثلاً ایک طرف 9 راجدھانیاں ہیں جن کے مہاراجے ہیں اور مہاراجوں کے اوپر بادشاہ ہے جس کو سلطان کہا جا تا ہے
دوسری طرف پارلیمنٹ ہے وزیر اعظم ہے جس کے پاس انتظامی اختیارات ہیں ،بعض راجد ھانیوں میں وزیر اعظم کی براہ راست حکومت بھی ہے اسی طرح سیاحت ملائیشیا کی بہت بڑی انڈسٹری ہے اس انڈسٹری کے فروغ میں جہان ملائیشیا کی قدرتی خوب صورتی کا دخل ہے، وہاں حکومت کی طرف سے خصوصی طور پر سجا ئے گئے سیاحتی مقامات کا بھی بہت بڑا حصہ ہے، مثلاً باتو غار کا منفردمقام قدیم عمارات اور مذہبی مقامات میں سے ہے۔ اس کی تاریخ 4000 سال پُرانی ہے تا ہم 1920ء میں اس کو سیاحتی مقام کے طور پر متعارف کیا گیا اس کے مقابلے میں پترا جایا اور سن وے لیگون جدید دور میں ملا ئیشیا کی حیرت انگیز ترقی کے دو نمونے ہیں جن کی سیر کرکے سیاحوں کا جی نہیں بھرتا جی چا ہتا ہے کہ بندہ بیٹھا رہے اور دیکھتا رہے
اس طرح نگارا کا عجائب گھر ملائیشیا کی تاریخ کا حسین مرقع ہے ۔ جہاں زمانہ قبل از تاریخ سے لیکر عصر حاضر تک کے بیش قیمت نوادرات رکھے گئے ہیں ۔ آفتاب اقبال بانو نے سفر نامے کے اندر گروپ کے ساتھیوں کا بھی بار بار ذکر کیا ہے نیز سوسایءٹی اف ایشین سویلائزیشن کاحوالہ دیا ہے جس کے پلیٹ فارم سے اس دورے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ ناصر علی سید،ڈاکٹر عبدالجلیل پویلزی اور حفیظ الرحمن خان نے اپنے شذروں میں مصنفہ او ر کتاب پر اظہار خیال کیا ہے۔