شاہنامہِ میرزا محمد سیّار کے ناقدین
مرزا محمد سیّار المعروف سیار لال چترال کے ایک اہم فرزند گزرے ہیں جنکا دور 1790ء سے 1820ء کے لگ بھگ ہے۔ چونکہ محترم شاہ کٹور ثانی کے دور میں وہ اپنی زندگی کا بھرپور دورانیہ گزار رہے تھے اسلئے اکثر تاریخی واقعات یا تو انکے سامنے ہی پیش آئے تھے یا وہ ان لوگوں سے آشناء تھے جنہوں نے وہ واقعات دیکھے اور سنے تھے۔
وہ نہ صرف عالم و فاضل بلکہ دانا اور بہادر انسان تھے۔ روایات کے مطابق محمد سیّار نے چترال کے مقام ژُوغور میں ایک عالم سے بنیادی تعلیم حاصل کی تھی اور پھر کشمیر اور بدخشان کے علاقوں کو جاتے ہوئے وہاں کے اہل علم سے بھی استفادہ کرتے رہتے تھے۔
شاہنامہ فردوسی کی طرز پر انہوں نے چترال کی تاریخ کو ڈھال کر جو سب کچھ انکو اچھی طرح معلوم ہوا وہ انہوں نے بڑے دلکش پیرائے میں ڈھالا ہے۔ ریشون گاؤں جو انکے اپنے گاؤں شوگرام کے بالمقابل ہے وہاں انکو کسی خاتون سے عشق بھی تھا جس پر انہوں نے کھوار زبان میں ایک دوبیتہ نظم لکھی ہے جو ایک مشہور گانا ہے اور اکثر گایا جاتا ہے۔
چترال کی تاریخ کا بڑا حصہ انکے شاہنامہ سے لیا گیا ہے اور اسکے علاؤہ کچھ اور شواہد اور باہر کے قدیمی نسخوں یا اس علاقے کے متعلق دوسرے تاریخی معلومات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
میری رائے کے مطابق دور حاضر کے کچھ ناقدین کو محمد سیار سے کچھ تحفظات ہیں جو درحقیقت حسد اور خاندانی بغض پر مبنی ہیں اور اسکی وجوہات ذیل ہیں۔
1_ محمد سیار بڑے دل اور دماغ کے آدمی تھے انہوں نے کہیں بھی نہیں کہا کہ اسوقت کے چترال کا حکمران میری دو تین ہشت کا چچازاد ہے، نہ ہی انہوں نے بابا ایوب کی روایت اور انکے ذیلی خاندانوں کی نشاندھی کی ہے۔
2_محمد سیار نے اپنے جد امجد محمد بیگ کی بہادری اور چترال کے رئیس حکمران کی طرف سے باشگلیوں کی سرکوبی کیلئے محمد بیگ کا لشکر کا سالار بنا کر بھیجے جانے کا ذکر صرف ایک شعر میں کیا ہے۔ اگرچہ یہ شعر فارسی ترکیب سے کچھ غلط ہے ممکن ہے نقل کرنے والے نے درست نقل نہ کی ہو مگر حاسدین کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔
زضربش تاختن جد ما محمد بیگ
ہنوز ازہمہ بازگل قلنگ می آید
3_ محمد سیار نے جو محسوس کیا اور دیکھا اسکو صاف صاف لکھا ہے اور کسی کی بلاوجہ تعریف نہیں کی ہے اور جو جیسا انہیں اچھا برا لگا ہے ویسے ہی اسکا ذکر بھی کیا یے۔
نہ صرف یہ کہ انکا شاہنامہ چترال ایک شاہکار اور ایک بڑی اہم دستاویز ہے بلکہ میرزا محمد سیّار بذات خود ایک عقلمند، فیاض اور بہادر انسان تھے۔ اسکا ثبوت اسی امر سے لیں کہ محمد سیار نے بڑی جنگوں اور خانہ جنگیوں کا دور گزارا اور محترم شاہ ثانی کے ہمرکاب رہے مگر کہیں اپنے شعر میں انہوں نے ایسا ذکر نہیں کیا ہے کہ میں نے فلاں کو تلوار ماری یا فلاں کی جائیداد پر قبضہ کر لیا۔
اب ان حضرات سے میں التماس کرتا ہوں جو مختلف زاویوں سے محمد سیار مرحوم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں۔ اگر انکے خاندان میں کوئی میرزا جیسا نہیں گزرا تو اسمیں میرزا صاحب کا کیا قصور ہے یا اگر میرزا نے انکی قومیّت کا یا انکے اجداد کے کسی کمال کا ذکر نہیں کیا ہے تو یقیناً وہ کمال انمیں ہوگا ہی نہیں۔
میرزا محمد سیّار چترال کی تاریخ کے ایک درویش منش اور عظیم ہستی تھے۔ ان پر تنقید کرکے یا انکی قابلیت پر اعتراض کرکے انکے مرتبے کو کوئی کم نہیں کر سکے گا البتہ اپنا معیار ضرور مزید گرا دے گا۔
محمد الیاس احمد
محلہ گولدور
چترال۔