Site icon Chitral Today

پرندے کو کندھا چاہیۓ

Javed Hayat Chitral

دھڑکنوں کی زبان 

 

محمد جاوید حیات
اقتدار کا پرندہ چھوڑا جاۓ تو بڑی قلا بازیاں کھاتا ہے لوگوں کے سروں پر گردیشیں لگاتا ہے لوگ آرزویں کرتے ہیں کہ آۓ ان کے کندھے بیٹھ جاۓ آرزوٶیں مرتی ہیں قتل ہوتی ہیں بہت تھکا کے کہیں جا کے کسی کے کندھے پہ بیٹھ جاتا ہے اور آگے لوگوں کا تجربہ ہوتا ہے کہ یہ نہایت موزون بندہ ہوتا ہے حکومت کرنے کا اہل ہوتا ہے ۔لوگوں کو اطمنان خوشحالی اور انصاف چاہیۓ ہوتا ہے باقی کسی سےکوٸی شکوہ نہیں ہوتا۔
یہ افسانے ہیں بڑے معقول اور پیارے افسانے ہیں لیکن اس حقیقت کی دنیا میں ”ووٹ“ جمہوری ملکوں میں اسی پرندے کا کردار ادا کرتا ہے بڑا سچا کھرا انتخاب ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں اس پرندے کا فہم و ادراک بھی مشکوک ہیں جس کندھے پہ بیٹھتا ہے وہ کردار بھی مشکوک لگتا ہے ۔”انتخابات“ کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے دوڑ دھوپ ہوتی ہے لڑاٸی جھگڑے، دھنگا فساد، ناراضگیاں، جھوٹ، شور شرابا، دھاندلیاں۔۔ آخر کیا نہیں ہوتا ۔۔۔ پھر نتیجہ آۓ وہی پرندے کی جھوٹ ۔۔۔اقتدار کے نشے میں دھت یہ نماٸندے سب کچھ بھول بھال جاتے ہیں وہ وعدے وعید جھوٹ کے کرشمے۔۔۔ ملک دیوالیا پن کی سطح پہ آجاۓ ۔۔کھینچاتانی، شورو غوغا ۔ لوگوں کو اس پرندے پہ شک ہونے لگتا ہے اور جمہوریت کے اس ٹوپی ڈرامے سے بیزار ہونے لگتے ہیں ۔۔کیونکہ وہ ”ہمارا منتخب نمایندہ “ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایسا کہنے سے ان کی نااہلی عیان ہوتی ہے۔۔
یہ جمہوریت ”غیر جمہوروں “ کے ہاتھوں میں آگئی ہے ان کو ”جمہوریت “کی پرواہ نہیں ان کو اپنے اقتدار، اپنی کرسی ، اپنے ہاٶ ہو کی فکر لاحق ہے جمہوریت اور عوام باڑھ میں جایٸں ۔دنیا کےملکوں میں جمہوریت کا نام عوام کی فلاح، اور ملک کی ترقی و خوشحالی ہے ۔عوام کا پیسہ عوام پہ خرچ ہوتا ہے منتخب نماٸندہ عوام کا خادم ہوتا ہے وہ خدمت کے لۓ اقتدار کی چڑیا کی اڑان کی آرزو کرتا ہے کہ اس کے کندھے پہ بیٹھ جاۓ ان کے نزدیک سیاست خدمت ہے۔
وہ قوم کے وساٸل کو امانت سمجھتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس پرندے کا گلا دبا دیا جاۓ ۔نماٸندے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے، گالیاں دینے اور ایک دوسرے کے عیوب تلاش کرنے میں گزار دیتے ہیں کسی مسلے پربات نہیں ہوتی قوم کی مفاد، ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی مطمع نظر نہیں ہوتا۔ بس کرپشن، اقربا پروری اور نا انصافیوں کا دھندا ہے ۔مقدور بھر جاٸدادیں بناٶ بس ”اکبر بہ عیش کوچ“ ۔۔۔اب ہم مجبور لوگ دعاٶں پہ آگۓ ہیں کہ جس کو اس ملک سے محبت ہے جو اس قوم سے مخلص ہے جس کو فکر آخرت ہے جو قوم کے خزانے کو امانت سمجھتا ہے جو اس کے وساٸل کو اللہ کی طرف سے نعمت سمجھ کر ان سے فاٸدہ اٹھانے کا سوچتا ہے۔ جس کے دماغ میں فرغونیت کی خبط نہیں جو قوم کاسچا کھرا خادم ہے چاہیۓ کہ اقتدار کاپرندہ اس کندھے پہ بیٹھ جاۓ۔ہم تھک گۓ ہیں
اللہ ہمارے بڑوں کو توفیق عطا فرماۓ۔ ہم سے بہت غریب ممالک اپنے محدود وساٸل بروۓ کار لاکر ترقی کے زینے چھڑ رہی ہیں ان کی ریونیو مضبوط ہے۔ ان کی ٹیکسیشن کا سسٹم صاف شفاف ہے ان کےدفتروں میں کام ہورہا ہے۔ ان میں عیاشیاں اور فضول خرچیاں کوٸی نہیں۔ ان میں قناعت ہے وہ مانگتے نہیں ۔وہ ٹیکنالوجی کے ساتھ مخلص ہیں ان کے ہاں خود ان کے کارخانے ہیں۔ ہم کل پرزے باہر سے مہنگے داموں منگواتے ہیں اور ان کو جوڑ کر اپنی تسلی کراتے ہیں ہم قرض لیتے ہیں پھر اس کی واپسی کا سوچتے تک نہیں ۔ہمیں امداد ملے تو وہ غریب کی بہبود اور ملکی ترقی کی سطح تک نہیں آتی۔ بحیثیت قوم ہم میں خود احتسابی کا جوہر نہیں۔۔ یا تو اقتدار کے پرندے کو کسی اور سر زمین کی طرف ہجرت کرنا چاہیۓ یا تو ایسے کندھے پہ بیٹھنا چاہیۓ جو کم از کم کرپٹ نہ ہو۔۔۔
Exit mobile version