ماہ و سال کا دیسی حساب
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
جب جنتری نہیں تھی، کیلنڈر چھپوا نے کا دستور نہیں تھا تو لوگ سال کے بدلنے، موسموں کے آنے جانے کا حساب کس طرح جا نتے تھے کس طریقے سے معلوم کرتے تھے کہ یہ کونسا مہینہ ہے ہماری نئی نسل جب پوچھتی ہے تو ہم ان کو تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے ہمارے بزرگوں کے پاس فلکیات کا دیسی علم تھا اس علم کی مدد سے وہ کاشتکاری کرتے تھے، گلہ بانی بھی کرتے تھے، سفر بھی کرتے تھے شکار بھی کھیلتے تھے اس روایتی علم کی تین بڑی شاخیں تھیں
اس کی پہلی شاخ کا تعلق سورج چاند اور سات ستاروں کی گردش سے ہے سورج کے طلوع اور غروب ہو تے وقت اس کی کرنوں کے ساتھ اس کے سایے کا مشاہدہ کرکے ہر گاوں میں نشانات متعین کئے گئے تھے یہ مستقل نشان تھے مثلا ً دوشاخہ چٹان، بڑا چشمہ، چھوٹا چشمہ وغیرہ، ان نشانات کو دیکھ کر حساب لگایا جا تا ہے کہ خزاں کب شروع ہوا، سردیوں کا چلہ کب آیا بہار کا حمل کب آیا، گرما کے موسم کا آغاز کب ہوا پھر ہر موسم کے اندر گرمی، سردی، بارش، برف باری اندھی، دھوپ وغیرہ کے دن مقرر کئے جاتے تھے جو درست ہوتے تھے
اس حساب سے ربیع اور حریف کی فصلیں کاشت کی جاتی تھیں اس حساب سے ریوڑ کو بلندیوں پر واقع چرا گا ہوں کی طرف لے جایا جاتا تھا اس حساب سے شکار کھیلا جاتا اور اس حساب سے سفر کی تیاری کی جا تی تھی گھرکے اندر روشندان سے سورج کی کرنیں آتیں اور غروب کی طرف جاتیں تو اس کے نشانات مقرر کر کے دن کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا خاتون خانہ اس حساب سے کھانا پکانے اور مویشیوں کو چارہ بھوسہ پانی دینے کے اوقات مقرر کرتی تھی
چاند کے ساتھ سات ستاروں کی گردش کا بھی ایسا ہی حساب تھا جو ماہ کی درست تاریخ کا پتہ دیتا تھا اگر رویت ہلا ل میں کسی وجہ سے غلطی ہوتی تو سات ستاروں کے جھرمٹ کے ساتھ چاند کے ملا پ کو دیکھ کر تاریخ کو درست کیا جاتا تھا سات ستاروں کے اس جھرمٹ کو مقامی زبان میں ’’بول‘‘ کہتے ہیں انگریزی میں پلیڈذ کہا جاتا ہے فارسی اور اردو نام خوشہ پروین ہے چونکہ چاند سال میں دس ماہ ادھورا، دو ماہ پورا ہوتا ہے اس کے مقابلے میں سات ستاروں کا یہ جھرمٹ ایک ہی وقت طلوع اور غروب ہوتا ہے اس لئے ہر ماہ کی ایک طاق رات کو دونوں کا ملا پ ہوتا ہے یہ طاق رات 25ویں سے شروع ہو کر 3تاریخ تک آتی ہے اس تاریخ کے روز و شپ کسی بھی کام کے لئے مناسب خیال نہیں کئے جاتے اور تجربات سے ثابت کیا گیا ہے کہ اس روز یا اس رات کوئی نیا کام نہ کیا جائے
اس حوالے سے بے شمار واقعات سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں اس روایتی علم کی دوسری شاخ بر جوں اور سیاروں کے بارے میں ہے علم فلکیات کے 12برجوں کی مدد سے پیش آمدہ واقعات سے آگاہی حاصل کی جا تی ہے برجوں کے نام ترتیب وار اس طرح لئے جاتے ہیں حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلوہ اور حوت 12بر جو ں کے ساتھ 7سیا رے ہیں ان سیا روں کے نام مشتری، زہرہ، عطارد، شمس، قمر، مریخ اور زحل ہیں
فلکیات کا حساب دان بُرجوں اور سیاروں کی حرکات کو دیکھ کر حساب لگاتا ہے ان کے علاوہ دوبے نام ستاروں کا ذکر ہو تا ہے ان میں ایک کونحس اکبر، دوسرے کو نحس اصغر کہا جاتا ہے نحس اکبرگول دائرے میں دائیں سے بائیں گردش کر تا ہے ہر سمت میں دو دن ٹھہر تا ہے، ایک دن زمین پر ہوتا ہے دوسرے دن آسمان پر اس طرح ہر ما ہ 6دن 4سمتوں میں اور 6دن زمین یا آسمان میں ہو تا ہے یہ قدیم مصر، ایران اور چین کے فلکیاتی تجربات سے ماخوذ علم ہے جو سینہ بہ سینہ ہمارے اسلا ف تک پہنچا ہے
اس علم کی تیسری شاخ بہت دلچسپ ہے اس میں سالوں کو جا نوروں سے منسوب کیا جاتا ہے او ر جس جا نور سے کوئی سال منسوب ہو اُس جانور کی خصلت اس سال کے دوران دیکھنے کو ملتی ہے اور اس کی با قاعدہ پیش گوئی کی جا تی ہے یہ 12جا نور چوہا، گائے، چیتا ، خرگوش، نہنگ، سانپ، گھوڑا، بھیڑ، بندر، مر غی، کتا اور سورہیں چیتا، نہنگ اور سانپ کا سال ہر لحاظ سے اچھا ہوتا ہے چوہے، گائے اور خرگوش کا سال برا نہیں ہوتا بھیڑ، بندر اور مر غی کا سال آئے تو قحط ہوگا، گھوڑا، کتا اور سور کا سال آئے تو خونریزی ہو گی 2019سور کا سال تھا یہ حساب آج بھی فلکیات اور نجوم کے ما ہرین کی تو جہ کا طلبگار ہے۔