سود اور اگلے پانچ سال
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بیان اخبارات کی زینت بنا ہے کہ اگلے پانج سالوں میں سود کا خاتمہ کیا جائے گا اس بیان پر بعض حلقوں میں خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا جارہا ہے اور اسلامی نظام معیشت کے ساتھ بینکوں کے اسلامی طریقہ کار کی طرف بات کا رخ موڑ دیا جاتا ہے
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلامی نظام معیشت کے تحت بینکوں میں کارو بار ہورہا ہے ترکی، قطر اور ملا ئشیا کی یونیورسٹیوں میں اسلامی معیشت کے خدوخال پر تحقیق ہو رہی ہے بھارت میں اسلا می نظا م معیشت پر کا م ہو چکا ہے پا کستان کے اندر بھی ان خطوط پر کا م کی گنجا ئش مو جود ہے مفتی تقی عثما نی کی قیا دت میں ماہرین کی ایک کمیٹی نے سفارشات بھی مرتب کر کے دی ہے بعض بینکوں نے اسلامی برانچ کے نام سے الگ برانچ بھی قائم کیا ہوا ہے لیکن عملی طور پر کام اب تک دیکھنے میں نہیں آیا
فیڈرل شریعت کورٹ کی طرف سے سودی نظام کے خاتمے کا حکم آیا تو حکومت نے فیصلے کے خلا ف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، پانج بڑے بینکوں کی ایک اپیل دائر ہو چکی ہے حکومت نے اگرچہ عوامی دباءو پر اپنی اپیل واپس لینے کا اعلان کیا تھا مگر اس اعلان پرعمل نہیں ہوا موجودہ حالات میں جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ جس صارف نے 2010 میں 5فیصد سروس چارج کے ساتھ شراکتی بنیا د پر گھر کی تعمیر کے لئے 20لاکھ روپے کا قرضہ لیا تھا اُس مد میں 42لا کھ روپے گذشتہ 12سالوں میں ادا کر چکا ہے، اگلے 8سالوں میں اس کو مزید 18لا کھ روپے ادا کرنا پڑے گا گویا شراکت اور 5فیصد سروس چارج کے نا م پر صارف سے 50فیصد سود لیا جا رہا ہے
سرکاری سطح پر 2010 میں سود 10فیصد مقرر تھا جو 12سالوں میں بڑھ کر 15فیصد ہو گیا گذشتہ ماہ حکومت نے سود کی سرکاری شرح 16فیصد مقرر کرنے کی پا لیسی جا ری کر دی حقیقت میں سود کی شرح 50فیصد ہے اس لئے علا مہ اقبال نے ایک نظم میں انقلاب روس کے با نی لینن کی زبان سے یہ لاجواب مصرعہ کہا تھا ’’سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگ مفاجات‘‘ اس وقت وفاقی محتسب کے سامنے بینکوں کے خلا ف شکا یتیں مو جود ہیں جن پر فیصلہ آنا باقی ہے وزیر خزانہ کے بیان میں 5سال کی جو شرط آئی ہے یہ شرط مضحکہ خیز ہے اس پر خوشی منانے اور مبارکباد دینے کی کوئی تُک نہیں بنتی کیونکہ مو جو دہ حکومت کی مد ت چند مہینوں میں ختم ہونے والی ہے، اگلی حکومت آگئی تو وہ کتنے سال رہے گی اس کا کوئی پتہ نہیں اور سو باتوں کی ایک یہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پارٹی پھر کبھی حکومت میں آئے گی یا نہیں اور جن لو گوں کی حکومت آئے گی وہ اردو پڑھنے والے ہونگے یا نہیں ان کو علا مہ اقبال اور لینن کا نام معلوم ہوگا یا نہیں بال جبریل کی نظم ہے جس کے اندر لینن خدا کے حضور میں حاضر ہوکر کہتا ہے
یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
صارفین کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صارفین الگ الگ لو گ ہیں ان کی کوئی یو نین نہیں ہے کوئی انجمن نہیں ہے کوئی جدو جہد نہیں ہے ہر صارف انفرادی حیثیت غیر قانونی اور نا جائز قسطیں ادا کر کے خود کو ڈیفالٹر ہونے سے بچا تا ہے جب ایک صارف اپنا حساب کتاب دکھا نے کے لئے وکیل کو ساتھ لیکر بینک میں گیا تو پتہ لگا کہ بینک والوں نے 10لا کھ روپے دے کر 30لا کھ وصول کرنے کا حساب لگا یا ہے اور سود 10لاکھ کے بجا ئے 30لا کھ پر لیا جارہا ہے 12سال تک صارف نے صرف سود ادا کیا، 12سال کے بعد اصل زر میں بھی کٹوتی شروع ہوگئی ہے اگلے 8سالوں میں وہ سود کے ساتھ اصل زر کو بھی ماہانہ قسطوں میں ادا کرے گا اور ماہانہ قسط میں ہر چھ ماہ بعد اضا فہ ہوتا رہے گا
گویا یہ بد بخت صارف بینک کے ہاتھوں میں یرغمال ہو چکا ہے اس کو آسانی سے چھٹکا را نہیں ملے گا یہ درد بھری داستان بینکوں کے ہر صارف کی ہے قابل غور بات یہ ہے کہ کویت، سعودی عرب، قطر، ایران، ترکی اور ملا ئشیا میں اسلامی بینکنگ کا جو کامیاب تجربہ ہوا ہے اس تجربے سے فا ئدہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا جاپا ن میں سود کے بغیر بینکاری کا تجربہ ہوا ہے اس کے خدو خال کیوں معلوم نہیں کیے جاتے قابل عمل بات یہ ہے اگر موجودہ حکومت سود کو ختم کرنے میں مخلص ہے تو سود سے پا ک بینکاری کے لئے 5سال انتظار نہ کرے ایک ماہ کے اندر سود سے پا ک معیشت کی پا لیسی اپنا کر ایک نمو نہ قوم کو دکھا ئے اور یہ عین ممکن ہے اخوت بینک نے اس پر عمل کرکے دکھا یا ہے۔