خصوصی افراد کو کئی رکاوٹوں کا سامنا
سید نذیرحسین شاہ نذیر
ہرسال پاکستان سمیت دنیا بھرمیں 3 دسمبرکوخصوصی افراد کا عالمی دن منایا جات اہے اس دن کومنانے کا مقصد معاشرے میں خصوصی افراد کے حقوق کو فروغ دینا، مسائل اُجاگر کرنا اوراحساسِ کمتری کا شکار ہونے سے بچاکر عام افرادکی طرح زندگی گزارنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
خصوصی افراد ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جو کسی ایسی بیماری یا محرومی میں مبتلا ہوں جو انسان کے روزمرہ کے معمولات زندگی سرانجام دینے کی اہلیت پرگہرے اثرات مرتب کرے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ برائے صحت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں جن میں 90 لاکھ خواتین مختلف معذوریوں کا شکار ہیں جبکہ ملک میں موجود 60 فیصد معذور افراد کا تعلق نوجوان طبقہ سے ہے جن کی عمریں 29 سال سے کم ہیں جو کہ ذہنی و جسمانی معذوری کے باعث مختلف نوعیت کے مسائل سے دو چار ہیں۔جسم کے مختلف اعضاء سے معذور ہونے کے باوجود انتہائی پر عزم و پر جوش دکھائی دینے والے خصوصی افراد کی صلاحیتیں اور ان میں ملک و ملت کی خدمت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ نارمل انسانوں سے کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
معاشرے کی ستم ظریفی اور حکومتی بے حسی کی بدولت خصوصی افراد کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ہمارے ملک میں 90 فیصد خصوصی افراد کو روزگار کے مواقع دستیاب نہیں اور اپنی گزر بسر کیلئے وہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ خصوصی فراد کو ہمارے معاشرے میں بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔ ان کی مشکلات کا جائزہ لیں توسرکاری اور غیرسرکاری دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، دوکانوں ،ہسپتالوں میں معذور افراد کو باآسانی رسائی ممکن نہیں۔ چونکہ عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذور افراد کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کاسامناکرناپڑتاہے جس کی وجہ سے اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتے ہیں۔ خصوصی افراد کو معذوری کی وجہ سے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔
چترال اسپیشل پیپلز آرگنائزیشن ایک واحد ادارہ ہے، جو چترال کے خصوصی افراد کیلئے کام کرتا ہے ۔ اور اب تک کئی خصوصی افراد کو ویل چئیر اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کر چکی ہے ۔ لیکن جو مدد اور تعاون تندرست اور صحت مند افراد کی طرف سے اُن کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ وہ نہیں کیا جا رہا ہے اس لئے وہ مایوسی کا شکار ہیں ۔ اسپیشل پیپلز آرگنائزیشن حکومتی اور عوامی سطح پر عدم تعاون کے باوجود اپنی بساط کے مطابق اُن افراد کی مدد کر رہا ہے جوخراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ جن کی مجبوریوں کو تندرست و توانا لوگ نہیں سمجھ سکتے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق چترال میں آٹھ سے دس ہزار کے قریب اسپیشل افراد موجود ہیں مگر سفری مشکلات اور لوگوں میں شعور نہ ہونے کے باعث چترال کے دور دراز کے علاقوں میں رہائش پذیر خصوصی افراد کی رجسٹریشن نہیں ہورہی ہے ۔ خصوصی افراد کو آزادانہ نقل و حرکت میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رکاوٹوں کے باعث خصوصی افراد بہت سےسماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتے اورسہولیات نہ ہونے کی وجہ سے جہاں بھی جاتے ہیں معذوری اُن کے لئے بڑی رکاوٹ بنتی ہے ۔ بازاروں اورپبلک مقامات پراُن کے لئے مخصوص ٹائلٹ اورانتظارگاہ نہیں ہے ۔ہسپتال اوردیگردفاتر میں واش روم اور داخلی دروازے معذور افراد کے گزرنے کے لیے قابل رسائی بنانے کی اشدضرورت ہے۔ ان بنیادی ضروریات کی غیر موجودگی سے سپیشل افراد غیر فعال ہوجاتے ہیں۔محکمہ سوشل ویلفیئرچترال کے مطابق اس وقت 3937خصوصی افرادکومعذورسرٹیفیکٹس جاری کرچکے ہیں ۔
چترال اسپیشل پیپلز آرگنائزیشن کے صدرثناء اللہ خودپولیوکی وجہ سے ایک ہاتھ اورپاوں سے معذورہیں نے بتایاکہ کتنےافسوس کی بات ہے کہ چترال میں ایک واحد اسپیشل ایجوکیشن سنٹر ہے وہ بھی پرائمری تک محدود ہے ۔ اور اُس میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسپیشل ایجوکیشن کو کم آز کم میٹرک تک اپگریڈ کیا جائے ۔ تاکہ خصوصی افراد صرف پرائمری تک محدود نہ رہیں ۔انہوں نے بتایاکہ معذور بچوں کی بڑی تعداد اس وجہ سے اسکول نہیں جا سکتی کیونکہ ان کے کلاس روم پہلی یا دوسری منزل پر ہوتے ہیں اور انہیں سیڑھیاں چڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ اور تفریحی مقامات پر معذور لوگوں کو الگ سہولتیں فراہم کی جائیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ذہنی و جسمانی معذور افراد کیلئے کوئی خاص قانون موجود نہیں بحالی معذور افراد ایکٹ 1981 کے تحت معذور افراد کیلئے نوکریوں میں 2 فیصد کوٹہ مختص ہے اور ان افراد کیلئے صحت کی سہولتوں کیساتھ ان کی بحالی اعضاء کا کام بھی حکومت پر فرض ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 اور 14 کے تحت تمام بنیادی سہولیات ان معذور افراد کا حق ہیں مگر افسوس کے ایسا دیکھنے میں بہت کم آیا ہے کہ ان افراد کو ان کی بنیادی سہولیات ملی ہو ورنہ ہسپتالوں ،تھانوں کچہریوں اور عدالتوں میں ان افراد کو اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہی دیکھا گیا ہے۔
ضلع چترال کی تحصیل دروش کے نواحی گاوں کڑدام دروش تعلق سے رکھنے والے وقار احمدپیدائشی طورپردونوں ٹانگوں سے محروم ہیں اور اپنی نقل و حرکت کے لئے وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ وہ گذشتہ آٹھ سالوں سے مدرسہ صدیق اکبردروش میں بلامعاوضہ ناظرہ قرآن پڑھارہے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں 99فی صدمساجد میں خصوصی افرادکے داخل ہونے کامناسب بندوبست نہیں ہے ۔ خصوصاً تعمیرات کے شعبے میں معذور افراد کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چڑھائی والے (ریمپ) راستے بنانے کی اشدضرورت ہے۔وقاراحمد کہناہے کہ معذوری کی حالت میں اگر گھر کا ماحول اچھا مل جائے تو انسان بیماری سے مقابلہ کرلیتا ہے اگر ماحول اس کے برعکس ہو تو پھر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور جسمانی معذوری کے ساتھ ذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔خصوصی افرادکوروزگار کی فراہمی اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ پیش آنے والی معاشرتی نا انصافیوں کو دور کرتے ہوئے ایسا ماحول دینا چاہیے جس سے وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور معاشرے کے مفید اور کارآمد شہری بن سکیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں معذوری کو صرف قابلِ ہمدردی سمجھا جاتا ہے۔ معذور افراد کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے حکومت اور معاشرہ اجتماعی کوششیں کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔معذور افراد بھی وطن عزیز پاکستان کے معزز شہریوں کی طرح اپنے حقوق کی پاسداری چاہتے ہیں۔ انہیں معاشرہ کا مفید اور فعال رکن بننے کے لیے تعلیم ، صحت، قابل رسائی ٹرانسپورٹ ، قابل رسائی عمارات اور روزگار چاہیے۔
4جون 2022 کوشائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ۔ “صوبہ خیبرپختونخوامیں سرکاری اعدادوشمارکے مطابق ایک لاکھ72ہزار624افرادمختلف معذوری کاشکارہیں جن میں 22ہزار728خصوصی افراد ضم شدہ اضلاع کے شامل ہیں سب سے زیادہ خصوصی افرادکی تعداد ضلع سوات میں ہے جہاں 17ہزار492افرادمعذوری کاشکارہیں۔
لاہورہائیکورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں محکمہ سوشل ویلفیئرخیبرپختونخوا نے جسمانی،بصارت سے محروم،بہرے اورگونگے اورذہنی طو رپر کمزور افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے جس کے مطابق صوبہ بھرمیں ایک لاکھ72ہزار624 مرد،خواتین اوربچے مختلف معذوری کاشکارہیں خیبرپختونخواکے ضم اضلاع میں چاروں کٹیگریزکے خصوصی افرادکی تعداد22ہزار728ہے جن میں سب سے زیادہ خصوصی افراد جسمانی معذوری کاشکارہیں ان میں سب سے زیادہ ضلع خیبرکے لوگ شامل ہیں جہاں یہ تعدادآٹھ ہزار990بنتی ہے ان میں صرف چھ ہزار290افرادجسمانی معذوری کاشکار ہیں۔