”علمی میلہ اور ہاٸی سکول چترال“
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
اس مہینے کی 26اور 27 تاریخ کو سنیٹینیل ماڈل ہاٸی سکول چترال میں علمی میلہ سجایا گیا تھا۔۔۔سب اس کو”ساٸنس اینڈ آرٹ اکزیبیشن“ کہتے تھے میں اس کو علمی میلہ کہنے لگا ہوں کیونکہ علم حاصل کرنے والے اور علم بانٹنے والے سب موجودتھے۔ صلاحیتیں بولتی تھیں۔
تقریبا نو پروجیکٹز تھے ستاٸیس سے زیادہ سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے تھے کالجز تھے ۔طلبإ طالبات تھیں اساتذہ، پروفیسرز اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ لوگ اپنے بچوں کا شعور، عقل، ہنر اور جستجو دیکھنے آۓ تھے تعلیم ویسے بھی سیکھنے کاعمل ہے اگر سیکھنے اور سیکھانے کی جستجو، شوق اور اخلاص میں کمی ہو تو یہ عمل بے کار جاتا ہے استاد لوگوں کے پاس قوم کا مستقبل امانت کے طور پر ہوتا ہے یہ عبقری لوگ اس کو جیسے سنواریں ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس میلے میں بچے بچیاں اپنے والدیں اپنے اساتذہ اپنے اداروں اور اس چترال کی پہچان تھے جس کی تہذیب ہی نرالی ہے ۔میں نے ایک پروجیکٹ میں بچیوں سے کہا کہ اپنا تعارف یوں کراٶ کہ ”سر ہم آپ کی بیٹیاں ہیں“ پھر ادارے کا نام اور اپنانام بتاٶ ۔اساتذہ کا خلوص بولتا تھا کہ وہ اپنےبچوں کی تربیت کرکے اس مقابلے کے لۓ تیار کر چکے تھے ۔بہت پرانی چیزیں اور تصورات بھی پروجیکٹوں میں دھراٸی گٸی تھیں اور نۓ تصور بھی تھے۔
افتتاح بہت شاندار تھا محکمہ تعلیم ضلع چترال لوٸر کے ڈپٹی ڈی ای او شاہد حسین صاحب اور ڈی ای او محمود غزنوی صاحب میر محفل تھے ان کے ساتھ پرنسپلز پروفیسرز لکچررز اساتذہ سٹیچ پہ موجود تھے سنیٹیل ہاٸی سکول کے متحرک نوجوان استاد عبد الحفیظ خان نے بہت خوبصورت انداز میں پروگرام کا افتتاح کرایا ۔واٸس پرنسپل شاہد جلال جو اس پروگرام کے روح رواں تھے پروگرام کے مقاصد بیان کۓ ۔ڈی ای او محمود غزنوی صاحب نے بہت خوبصورت انداز میں اپنا پیغام دیا سمیع الرحمن فاروق اعظم اور دوسرے اساتذہ کی سخت کاوش اور محنت بولتی تھی۔
سنیٹینیل ہاٸی سکول کی تاریخ میں یہ پہلا بڑا پروگرام تھا چترال کے دونوں ضلعوں کے تعلیمی ادارے ان مقابلوں میں شریک تھے ۔اس پروگرام کے انعقاد میں محکمہ تعلیم چترال لوٸر اور سنیٹینیل ماڈل ہاٸی سکول کے ذمہ داراں مبارک باد کے مستحق ہیں ۔۔مقابلے میں شریک بچے سب جیت گۓ تھے ان کا عزم ان کا شوق ان کی محنت ان کے چہروں سے عیان تھی وہ روشن، خوشحال، تعلیم یافتہ، مہذب اور خوبصورت چترال کے مستقبل تھے ۔زندگی واقع جدوجہد سے سجتی ہے اس لۓ مرد قلندر نے کہا تھا
”روح امم کی حیات کشمکش انقلاب“
تقسیم انعامات کی تقریب بہت شاندار تھی سٹیج سیکریٹری نے اس پروگرام کو ”خواب “بھی کہا اور خواب کی” تعبیر“ بھی ۔۔ایک شعر میں اس کا خلاصہ بیان کیا
۔۔خوب بھی تجھ سا اور نایاب بھی تیرے جیسا
زندگی خواب ہے اور خواب بھی تیرے جیسا
انعامات تقسیم کرنے والوں میں چترال کی دو قابل فخر بیٹیاں پروفیسر عاٸشہ عمر پرنسپل گورنمنٹ زنانہ ڈگری کالج دروش اور شکیلا انجم ڈپٹی ڈی ای او زنانہ چترال لوٸیر شامل تھیں ۔ڈپٹی ڈی ای او شاہد حسین نے اپنے پیغام میں اس پروگرام کو سنگ میل قرار دیا اور ہر سال اس میلے کو منعقد کرانے کاعزم کیا ۔۔شاہد جلال واٸس پرنسپل نے تمام سٹیک ہولڈرز اپنے سٹاف کالج یونیورسٹی کے پروفیسرز کا شکریہ ادا کیا مولانا محمد قاسم کی دعااور عصر کا سہانا سما خوشگوار یادیں لے کر رخصت ہوا اور پروگرام کا احتتام ہوا ۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند