مسلمات’ کا معیار کیا ہونا چاہئے؟’
کھوار اور کھو
تحریر و تحقیق: سرور صحرائی
جناب علی اکبر قاضی کا ایک مکالمہ انواز نیوز میں چند دن پہلے نشر ہوا تھا جس میں وہ کھو اور کھوار پر تحقیقی پہلووں سے اپنی معلومات اور تجزئیے اور رائے کا اظہار کر چکے تھے۔۔ جواب میں ہمارے محترم ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے اپنی معلومات اور مطالعے کے پس منظر کو لیتے ہوئے قاضی صا حب کے مذکورہ مکالمےکا دو دن پہلے جواب دیا جو چترال ایکپریس اور انواز نیوز میں شائع ہوا ہے۔
اس ناچیز نے قاضی صاحب اور ڈاکٹر فیضی صاحب دونوں کے خیالات پر چترال ایکسپریس میں مختصر کومنٹ کرنے کی کوشش کی مگر کچھ تیکنیکی پیچدگی کے باعث میرا تبصرہ پوسٹ نہ ہوسکا۔ اس لئے اس بندے کو خیال آیا کہ اپنے یہ دو چار جملے ‘انواز’ کے لئے لکھوں اور قارئین کی نذر کروں۔
تکنیکی پہلوں سے قاضی صاحب کے تجزئے کے بعض حصوں پر علمی اور تاریخی حوالوں سے اختلاف بھی ممکن تھا اور ہے، تاہم انکی طرف سے پیش کردہ جدت و حدت لئے ہوئے عالمانہ مکالمہ بھی سننے کے قابل ہے کیونکہ اس طرح کے مکالمے، فلسفے اور آرٹیکل عوامی نہیں، علمی ہوتے ہیں تاہم عوامی اور سماجی جذبات کی کسی نہ کسی پہلو سے نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بولنے اور لکھنے میں اپنے اپنے شعبے کے لوگ آزاد ہوتے ہیں اور یہ معاشرہ اور قارئین کا حق ہوتا ہے کہ ان کی آراء سے متفق ہوجائیں، یا علمی اور مستند حوالوں سے ان کی رائے سے اختلاف رکھیں، دونوں صورتوں میں لکھاری کو حوصلہ افزائی اور تجربہ دونوں کی صورت میں جواب ملے گا۔۔
ڈاکٹر صاحب کے کالم میں کچھ باتیں ضرور وزن رکھتی ہیں۔ مذکورہ کالم کے تمام اجزا پر طویل بات ہوسکتی ہے لیکن طوالت کا مسئلہ سامنے آتا ہے، تاہم کالم کے تناظر میں یہاں صرف دو پہلووں پر کوشش کرکے مختصرا اپنے حسب حال عرض کرونگا
“مسلمات” کی اصطلاح کا اطلاق مذہبی اور عقائد کے معاملات کی طرح ہو بہو تاریخ، روایات اور انسانی علم و عمل کے معاملات پر اطلاق کرنا میری دانست میں انتہا پسندی کے مترادف ہے۔ درست ہے کہ معاشروں میں بعض چیزیں روایات کے گرد گھومتی ہیں اور قانون کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو صبح و شام معاشرے کے افراد کے سروں پر سوار ہوتے ہیں ان کے خلاف یا ان کی غیر موافق کوئی بات یا عمل کیا جائے تو معاشرے میں معیوب لگتا ہے۔ تاریخ کے معاملے میں بھی ایک پہلو وہ ہوتا ہے کہ اس کو آپ جھٹلا نہیں سکتے تاہم کچھ پہلووں پر بات ہوسکتی ہے۔ تبدیلیاں آسکتی ہیں، اضافے کئے جاسکتے ہیں، کانٹ چھان کی جاسکتی ہیں مگر ثبوت اور دلائل کے ساتھ۔۔۔ مسلمات صرف وہ بنیادی واقعات ہوتے ہیں جن کے ہونے کو جھٹلانا ناممکن ہوتا ہے۔۔
چترال کی تاریخ سے مثال ہم پیش کرسکتے ہیں۔ مثلا یہاں رئیسہ خاندان کا اقتدار رہا ہے۔ جہاں بھی جائیں اور پوچھیں ہر ایک باشندہ اس بات کی تصدیق کرے گا۔ یہ بات ایک حد تک “مسلمہ” ہے۔
لیکن یہ ‘مسلمہ’ نہیں کہ وہ کون تھے؟ کس نسل کے تھے؟ کس دور میں آئے تھے، کس مذہب کے تھے اور ان کا دورانیہ کیا تھا؟ یارقند سے آئے حکمران رئیسہ کہلاتے تھے کہ بدخشان سے آئے حملہ آور رئیسہ کہلاتے تھے وغیرہ..
اس پر باتین ہوتی رہیں گی، تحقیقات ہوتی رہیں گی، قدیم بیانئے تبدیل ہوتے جائیں گے۔۔۔
یہاں پر کٹور خاندان کا اقتدار رہا ہے۔۔ محترم شاہ اول سے لے کر سیف الملک ناصر تک کے نام تسلیم شدہ ہیں، ان کا ریکارڈ، ان کی قبریں اور ان کی اولاد کے گھر معلوم ہیں۔۔ یہ ‘مسلمہ’ کہلا سکتا ہے لیکن یہ ‘مسلمہ’ نہیں کہ ان کے اولین اجداد کون تھے۔۔۔ کہاں سے آئے تھے یا اصل باشندوں میں سے تھے۔۔۔۔ وہ اجداد کس مذہب کے تھے۔۔۔ کب آئے تھے۔۔۔ ان کی حکومت کا اصل دورانیہ کتنا تھا۔۔۔وغیرہ۔۔۔
شاہ بریا ولی کی آمد کو تو شاید مسلمہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نام بظاہر معروف ہے، اسکا مقبرہ موجود ہے۔۔مگر ان کی آمد کی تاریخ، انکا اصل نسل، مسلک اور وفات کی تاریخ کے بارے میں باتین کی جاسکتی ہیں کیونکہ انکو مسلمہ نہیں کہا جاسکتا۔۔
کون کہہ سکتا ہے کہ ناصر خسرو کا وجود نہیں تھا۔۔یہ کہ اسماعیلی مسلک کے لئے ان کی تبلیغی اور تحریری خدمات نہیں ہیں۔ سب موجود اور مسلمہ کہے جاسکتے ہیں لیکن ان کی گرم چشمہ یا چترال کے دوسرے مقامات تک بذات خود آمد وغیرہ باتوں پر اس وقت بھی بحث جاری ہے۔ آئندہ بھی رہے گی۔ خود بعض اسماعیلی سکالرز بھی ان روایات پر مطمئن نہیں ہوسکے ہیں۔۔ایسی صورت کو اس لئے مسلمات نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں تبدیلیاں نہ آئیں۔۔
چترال کے اندر کھوار بولنے والا ایک اکثریتی نسلی یا لسانی گروہ موجود ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایسا نہیں ہے۔۔ یہ مسلمہ ہے۔۔لیکن
یہ بات ‘مسلمہ’ نہیں کہ تین ہزار سال پہلے “کھو” نام سے ایک “قوم” کھوار بولتے ہوئے باہر کہیں سے چترال آئی اور یہاں پھیل گئی۔
اسی طرح یہ بات “مسلمہ” نہیں کہ کھو نام سے قوم بروغل سے لے کر افغانستان کے جلال آباد تک تین ہزار سال پہلے پھیلی ہوئی تھی۔۔۔
یہ بات ‘مسلمہ’ ہے کہ زبان کا نام کھوار ہے
لیکن یہ ‘مسلمہ’ نہیں کہ اسے باہر سے کھو قوم اپنے ساتھ لائی تھی۔ یا یہ کہ تین ہزار سالوں سے سارے چترال کی زبان رہی ہے یا یہ نام تین ہزار سالوں رائج ہے۔۔۔۔
جب تمام معلوم سیاسی حکومتوں کے دورانئے، حکمرانوں کے نسلی تعلق ، بابا ایوب کی شناخت وغیرہ مسلمات میں نہ رہے تو تین ہزار سالوں کی طویل تاریخ کے اندر “کھو قوم” اور کھوار زبان کے بارے میں مذکورہ سارے
“غیر “مسلمات” پر تحقیق، ان کے نتائج کو سامنے لانا اور علمی و تاریخی بحث کو “مسلمات” اور ممنوعات کا نام دے کر یکسر نظر انداز کرنا اس دور میں ناممکن اگر نہیں مشکل ضرور ہے۔۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ معروف بابائے تاریخ ‘ہیرو ڈوٹس’ یونانی مورخ ضرور تھے مگر وہ سکندر اعظم یونانی کے مورخ/ وقائع نگار نہیں تھے، وہ ایران کے بادشاہ دارا ( 522-486 ق-م) اور خشیار شا ( 486-465 ق-م) کے دور کے علاوہ دیگر اہم واقعات کے، یونان اور ایران کے درمیان جنگوں اور کشمکشوں کی تاریخ لکھ چکے تھے جو 425 ق- م میں شائع ہوئی تھی۔ 420 ق- م میں ان کا انتقال ہوا تھا سکندر اعظم کی پیدائش سے 70 سال پہلے۔۔ کونڑ آنا اور کونڑ کے دریا کے لئے مبینہ نام khoaspes کو ان سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔۔
ہاں سکندر کے ایران اور اس کے مقبوضات پر حملوں کے دوران اس کے ساتھ عسکری مورخین موجود تھے اور اس کے کئی سو سالوں بعد بھی یونانی مورخین تحقیق کے آئے تھے جن میں Tolemy, Aristotle, ,Strabo،P,،,Quintuss, Plutarch، Arrian شامل ہیں۔
یہ لوگ لغمان سے لے کر کونڑ، باجوڑ اور دیر سوات کے قبائلوں کے نام اپنی معلومات و مشاہدات کے تحت لے چکے ہیں جن سے ان کی جنگیں ہوئیں جن میں khoaspes شامل ہے۔
یونانی اسکرپٹ میں جو لفظ قدیم یونانی کتابوں میں کونڑ کے قبیلے کے لئے موجود پایا جاتا ہے وہ ev Aspes ہے، جو رومن میں آکر xoaspes بن جاتا ہے ۔جس کے اس وقت کے ایرانی مقبوضہ علاقے جلال آباد و کونڑ میں ایرانی زبان میں “خو” یا “خوب” تلفظ ہوتا تھا اور aspes فارسی میں گھوڑا بنتا ہے یعنی اچھے گھوڑوں والے لوگ۔ khoaspes کو “دریائےکھو” بنانا ایک افسانہ ہے۔ نہ ہی یونانی زبان میں دریا کو aspes کہتے ہیں نہ ہی یہ لفظ ‘کھو’ ہے۔۔ یونانی زبان میں دریا کے لئے لفظ Potami مستعل ہے aspes نہیں۔۔
اس لفظ کھو اسپ کو اولف کیرو نے good horses اور اللہ بخش یوسفی نے شاہسوار ترجمہ کیا ہے کیونکہ وہ لوگ جن کا سکندر اعظم سے سامنا ہوا تھا وہ ایران الاصل ایرانی آریا تھے ۔ بہت سے مورخین نورستان کے موجودہ ” کوم” قبیلے کو یونانیوں کے خو اسپس سے منسوب کرتے ہیں۔ انہیں اعلی قسم کے گھوڑے پالنے اور جنگی نقطہ نظر سے اول درجے کے جنگجو بھی بتایا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سکندر اعظم یونانی نے ان ایرانی الاصل کھشتریہ ‘کوم’ یا ‘کمبوجہ’ کی کاپیسا میں مشہور حکومت کا 330 ق- م میں خاتمہ کیا تھا۔۔ کونڑ اور باجوڑ میں انہیں khoaspes اور دیر اور سوات میں انہی قبائل کو یونانی لہجے میں تاریخی کتابوں میں Asvakenoi لکھا گیا ہے۔۔
اس لئے چترال میں اس وقت خواندگی کی کمی کے زمانے میں جان بڈلف کے اولین افسانوی اور سو فیصد خیالی انکشاف سے متاثر ہوکر کھو لفظ کو سکندر اعظم کے زمانے سے دیوانہ پن میں منسلک کرکے جلال آباد تک دکھا کر تاریخ کی بنیاد بنانے کے فلسفے کو چند لمحات کے لئے ترک کرکے خود بالائی چترال کے کھو علاقے میں ڈھونڈ کر فرزانہ پن کا مظاہرہ کیا جائے تو اس کوشش کے نتائج زیادہ تاریخی، زیادہ مدلل اور قابل قبول ہوں گے۔۔یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ کھو لفظ کسی قدیم جد کا نام تھا یا علاقے کا جس سے کھوار بنا ہے۔ جس سے یہ ہوگا کہ کھوار زبان کے موجودہ نام کی تاریخ واضح ہوجائے گی کہ یہ ہزاروں سالوں کی بات ہے یا کٹوریہ حکمرانی کے دور کی بات ہے۔!
آئندہ اس موضوع پر بات ان خطوط پر کی جائے تو زیادہ مناسب رہے گا اور تحقیق آگے بڑھے گی۔۔