وقت اور میڈیا
داد بیداد
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
وقت گذر نے کے ساتھ خبررسانی اور پیغام رسا نی میں نئے نئے انقلابات آرہے ہیں آج سے 50سال پہلے دنیا میں سوشل میڈیا کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا 1975ء میں میری عمر کے لوگوں نے اخباری دنیا میں قدم رکھا تو پیغام رسانی کا یہ حال تھا کہ صدر یا وزیر اعظم یا غیر ملکی مہمان عزیز اگر سوات، دیر اور چترال کا دورہ کرتا تو اس کی تصویر دو دن بعد اخبار کے دفتر میں وصول ہوتی تھی اقتدار علی مظہر اور قاضی سرور اگر ڈائریکٹر اطلا عات کی حیثیت سے وی آئی پی کے ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے تو کیمرے کی ریل اپنی جیب میں ڈال کر دفتر پہنچا دیتے اور ٹرسٹ کے اخبارات کوجاری کرتے یہ مو قع بہت کم آتا تھا خبریں ٹیلی پرنٹر کے ذریعے اخبارات کو ملتی تھیں اور یہ سہولت صرف بڑے شہروں میں اے پی پی کے ذریعے دستیاب ہو تی تھی
پاکستان ٹیلی وژن سنٹر کا جنرل منیجر سب کی تو جہ کا مرکز ہوا کرتا تھا ریڈیو کا نیوز ایڈیٹر اہم خبریں لا یا کرتا تھا ٹیلی وژن کی رسائی ہر جگہ نہیں تھی اس لئے ٹیلی وژن کے رپورٹر کی اہمیت ریڈیو کے رپورٹر کے بر ابر نہیں تھی اخبار کے نیوز ڈیسک پر ایک ٹرانسسٹر ریڈیو ہوا کر تا تھا جو خبروں کا اہم ذریعہ تھا اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا نے سب کو ما ت دیدیا ہے اور اقتدار کے ایوا نوں سے لیکر گھر کی چار دیواری تک ہر ایک کے لئے مسئلہ اور چیلنج پیدا کر دیا ہے ایوان اقتدار کی غلا م گردشوں میں کسی بات کو چھپا نا ممکن نہیں رہا ، راز داری کا پورا نظام تہہ وبالا ہو چکا ہے گھر کی چار دیواری کے اندر بچوں کو کارٹون، گیم اور دیگر سر گر میوں سے دور رکھنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو گیا ہے یہ صرف ترقی پذیر مما لک کا مسئلہ نہیں بلکہ ترقی یا فتہ مما لک کے لئے بھی درد سر بن چکا ہے کوریا میں بیٹھا ہوا ایک بچہ ٹوئیٹر پر خبر چلا تا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور یو رپ میں فساد بر پا ہوتا ہے، میکسیکو میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی خبر بھیجتی ہے جس کی وجہ سے 10منٹ کے اندر دنیا کے نصف حصے میں کم ازکم 2ارب کی آبا دی ذہنی کوفت، پریشا نی اور دباءو کا شکار ہو جاتی ہے یا سنگا پور سے ایک غیر معروف شخص ایسی خبر دے دیتا ہے جس کی وجہ سے کم ازکم چار مما لک میں فسادات پھوٹ پڑتے ہیں
امریکہ اور یورپ میں آزادی اظہار رائے کے قانون کی پا سداری کر تے ہوئے خبروں کی چانچ پڑ تال پر زور دیا جاتا ہے لیکن اب تک اس کا کوئی قابل عمل طریقہ نہیں بتا گیا چین، روس، ایران، سعودی عرب اور شما لی کوریا نے سوشل میڈیا کے عالمی دھا رے پر جیمر لگا کر با ہر سے آنے والی خبروں کو روک دیا ہے، بے ہو دہ تصاویر کو بھی روکا ہوا ہے ان کے ہاں ممنو عہ خبریں اورممنو عہ تصاویر سوشل میڈیا پر نہیں آتیں تا ہم پا بندی لگا نے کی وجہ سے ان مما لک کو تنقید کا نشا نہ بنا یا جا تا ہے پا کستا ن میں بھی ایک آدھہ بار سوشل میڈیا کو قانون کے دائر ے میں لا نے کی کو شش کی گئی لیکن بہت جلد پا بندی ختم کی گئی اس وقت پا کستان جیسے مما لک کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ سو شل میڈیا کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ایک مشہور کا روباری شخصیت کا سات سالہ بیٹا آنکھو ں کی بیما ری کا شکار ہوا، ڈاکٹر وں نے سینکڑوں دوائیں تجویز کیں مگر افاقہ نہیں ہوا
آخر کار ایک ڈاکٹر نے کہا کہ بچہ ایک رات میرے گھر میں چھوڑ کر جاو، رات کو ڈاکٹر نے اپنے بچوں سے کہا کہ مہمان کی دلچسپی کے گیم اور کا رٹون دیکھو پھر مجھے بتاءو کہ ان میں کیا مواد ہے صبح معلوم ہوا کہ یہ بچہ جو کار ٹون دیکھتا ہے اُس میں ایک بچہ ہے جو بار بار آنکھ مار تا ہے، اس کو دیکھ کر بچے کے اندر آنکھ مار نے کی بیماری پیدا ہو ئی ہے ڈاکٹر نے مر ض کی تشخیص کے بعد دوا تجویز کی کہ بچے کو 6ما ہ تک کار ٹون سے پر ہیز کروایا جا ئے چنا نچہ کارٹون سے پر ہیز کے بعد بچہ تندرست ہوا حکومتوں کے لئے لا قا نو نیت، دہشت گردی اور سما جی برائیوں پر قابو پا نے کے لئے سو شل میڈیا پر نظر رکھنا ضروری قرار دیا جا رہا ہے وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطا بق خبروں کی چھا نٹی اور اچھے یا برے میں تمیز کا کوئی پیمانہ ہونا بہت ضروری ہے۔