Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

ڈایریکٹر ایجوکیشن کا زبانی پیغام

دھڑکنوں کی زبان

محمد جاوید حیات

سوشل میڈیا کا ایک یہ فاٸیدہ ہے کہ یہ ”جذبات“ کو براہ راست سب تک پہچاتا ہے۔ میں ایک سکول ٹیچر ہوں تیس سال کی سروس ہے۔ جب پہلی دفعہ اس محکمے میں داخل ہوا تھا تو جذبہ جوان تھا لیکن یہ جذبے خواب بنتے گۓ اب تیس سال بعد بھی خواب ہی ہیں۔ کچھ دن پہلے پہلی بار ڈاٸریکٹر ایجوکیش کا آڈیو پیغام آیا تھا تو مجھے لگا کہ میرے خوابوں کی تعبیر آرہی ہے۔ میں نے ایک آرٹیکل لکھ ڈالا آٸین میں پہلے نمبر پہ چھپا۔ ڈاٸریکٹر کا پیغام اساتذہ کے نام تھا۔وقت کہ پابندی کرو سکول اسمبلی میں تشریف لاو۔ صاف ستھرے کپڑے پہن کے آٶ۔ کالے رنگ کے جوتے ہوں واسکٹ ہو سفید رنگ کے کپڑے ہوں خوشبو لگاٶ کہ تم ایک قوم کے معمار ہو ۔قوم تمہیں دیکھ کے فخر محسوس کرے کہ دیکھو معمار قوم آرہا ہے۔

یہ میرا خواب تھا کہ معمار قوم کی کو پہچان ہو کوئی اٸڈنٹٹی ہو۔ لوگ اس کو شکل و صورت سے پہچان سکیں۔یہ خواب میں نے کٸ بار اپنی تحریروں اور تقریروں میں اور ساتھیوں کے نجی گفتگو میں بیان کیا تھا اب ڈاٸریکٹر صاحب کا پیغام سن کر جھوم اٹھا تھا چلو دیر سے سہی میرے خواب کو تعبیر مل رہی ہے لیکن سوشل میڈیا میں اس کو بقول ڈاٸریکٹر صاحب ” مذاق“ بنایا گیا۔

میری مودبانہ گزارش ہے کہ ڈاٸریکٹر صاحب کو احساس ہونا چاہیۓ کہ ان کے اساتذہ میں ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں کہ ان کا مقصد صرف معلمی ہے۔ وہ دنیا کے اور دھندوں سے تعلق نہیں رکھتے وہ تمہارے پیغام کو دل پہ لیتے ہیں تمہارے حکم کو سر آنکھوں پہ لیتے ہیں تم میر کارواں ہو اور وہ اس کارواں کے ہراول دستے ہیں ۔اگر تم نے حکم دیا ہے کہ صاف ستھرا کپڑا پہن کے خوشبو لگا کے اپنے سکولوں میں حاضری دو اور یہ پیغام اگر کسی کو برا لگا ہے تو تم اس بندے کو کس کھاتے میں لیتے ہو یہ کم از کم استاذ نہیں ہوسکتا ۔یہ کوئی مہذب شہری بھی نہیں کہلا سکتا۔ آج معاشرے کا وہ کونسا فرد ہے جو اپنی صفاٸی ستھراٸی کا خیال نہٕیں رکھتا۔اگر کوٸی ریڑھا بان بھی ہے وہ بھی پہلے منہ ہاتھ دھوتا ہے ناشتہ کرتا ہے تب چھاپڑی لگاتا ہے ۔اگر کسی کو آپ کا یہ پیغام برا لگا ہے میں تو اس کو کسی کھاتے میں نہیں رکھتا۔ ڈاٸریکٹر صاحب معلمی دنیا کا عظیم ترین پیشہ ہے اس لۓ کہ یہ جس ماحول میں انجام پاتا ہے وہ سب سے نمایان اور بے مثال ہے ۔معاشرے کے دوسرے پیشے اس کی برابری نہیں کر سکتے ۔ڈاکٹر جتنا بن ٹھن کے ہسپتال جاۓ وہاں ان کا تعلق مریض سے ہوتا ہے۔ پولیس آفیسر جتنا بن سنور جاۓ اس کا تعلق ملزم اور مجرم سے ہوتا ہے۔ انجینٸر کسی عمارت کے لان میں ریت بجری چیک کر رہا ہوتا ہے سیاست دان گالیاں دیتا ہے گالیاں سنتا ہے بڑے سے بڑے آفیسر کا تعلق گلشن انسانیت کے پھولوں سے نہیں ہوتا فلمی ایکٹر ایکٹرس اس یونیفام میں نہیں ہوتے جس میں وقار ہو۔کےیہی معلم ہے کہ جس کے لباس سے بھی تربیت کی خوشبو آتی ہے۔ اگر کوٸی حقیقی معلم ہے تو وہ سراپا معلم ہوتا ہے بڑے سے بڑا آدمی اپنے لخت جگر کو صاف ستھرے کپڑوں میں صرف اس کے پاس بھیجتا ہے تاکہ وہ اس سے تربیت حاصل کر سکے لیکن حضور والا تب بھی اگر یہ معلم اپنا خیال نہیں رکھتا تو وہ معلم کھلانے کے لاٸق نہیں ۔اگر کسی معلم کے لباس پوشاک معلم جیسا نہیں تو وہ معلم کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم معلمی کو دوسرا درجہ دیتے ہیں میرا سوال انہ مذاق اڑانے والوں سے یہ ہے کہ اگر وہ کسی معمولی آفیسر کے سامنے جانے لگیں تو کیا اپنے لباس کا خیال نہیں رکھیں گے کیا وہ پلاسٹک کے چپل پہن کے جاٸیں گے ایسا کبھی نہیں کر سکتے ۔اگر کوٸی استاذ خود اپنے شاگردوں کو بغیر صاف ستھرا سکول آنے پہ معترض ہوتا ہے ان کو تنبہ کرتا ہے ان کی سرزنش کرتا ہے تو خود اپنے آپ کا خیال کیوں نہیں رکھتا ۔دنیا کے مہذب معاشروں میں استاذ کی شناخت ہے جو ان کے لباس سے شروع ہو کر ان کے کردار اور علم پر ختم ہوتا ہے۔ڈاٸریکٹر صاحب آپ کوبے مثال اساتذہ بھی ملیں گے جن کو زمانہ یاد رکھتا ہے۔لیکن میری گزارش یہ ہے کہ آپ کا یہ پیغام ”حکم“ بن جاۓ ۔یونیفام لازمی کراٸیں معماران قوم کو شناخت دےدیں۔ ان کا مقام بلند کرنے کی سعی کریں۔ وہ سچے مخلص اور حقیقی معنی میں معماران قوم ہوں۔ یہ ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ آپ کا یہ پیغام میرا خواب تھا اور مجھ جیسے کٸ اساتذہ کا خواب ہوگا کہ استاد کی الگ شناخت ہو۔ ڈیوٹی ٹاٸم کے بعد استاذ کی سرگرمیوں پر کوٸ قدعا نہیں لیکن تب بھی اصل معلم وہ ہے جو ہر لمحہ اپنی معلمی کی لاج رکھے کوٸی ایسا کام خواہ کاروبار ہی کیوں نہ ہو نہ کرےکہ وہ اس کو اپنے شاگردوں کے نزدیک بےوقعت کرے۔ آپ کا پیغام ایک تازیانہ ہے ایک حکم نامہ جس کو سنجیدہ لینا چاہے تاکہ آپ کے استاد کی ساکھ بحال ہو۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!