Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

فرق یا تفاوت

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

فرق یا تفاوت کے لئے انگریزی میں ’’ڈس پے ریٹی‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے حکومت نے 2005ء میں ایک کمیشن بنائی تھی جس کا نام تھا ’’پے اینڈ پنشن کمیشن‘‘ اس کمیشن نے چار سال مسلسل کام کرنے کے بعد 2009ء میں اپنی سفارشات حکومت کو پیش کی جن کو منظور کیا گیا، ان سفا رشات کی روشنی میں عدالتوں میں کئی مقدمات کے فیصلے بھی صادر ہوئے یوں کمیشن کی رپورٹ پی ایل ڈی کی زینت بھی بن گئی، کمیشن کی سفارت میں ایک بڑی سفارش یہ تھی کہ سرکاری ملا زمین کی تنخواہوں، مراعات اور پنشن میں فرق یا تفاوت کو ختم کرکے سب کو مساویا نہ طریقے سے یکساں مراعات دی جائیں

ان سفارشات پر عملدرآمد کے لئے وفاق اور صو بوں کے اندر عملدرآمد کمیٹیاں بھی بن گئیں اور کئی جگہوں پر نظر آنے والے فرق یا تفاوت یا ڈس پے ریٹی کو ختم کیا گیا آج میری میز پر20خطوط پڑے ہیں سولہ خطوط درجہ چہارم ملا زمین کی طرف سے ہیں چارخطوط بالائی حکام یعنی گریڈ 20سے اوپر کے نظر انداز افیسروں کی طرف سے ہیں، درجہ چہارم ملا زمین کا تعلق محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا سے ہے، افیسروں کا تعلق، محکمہ صحت، تعلیم، سما جی بہبود، آب نوشی، آب پاشی، محکمہ تعمیرات اور دیگر محکموں سے ہے

خطوط میں کمیشن کا ذکر ہے، عدالتی فیصلوں کا ذکر ہے سرکاری اعلا نات کا ذکر ہے سب کا تعلق تنخواہ، پنشن اور مراعات میں فرق یا تفاوت سے ہے، در جہ چہارم کے ملا زمین کہتے ہیں کہ جس محکمے میں ملا زمین کے لئے ور دی پہننا لازم ہو ان محکموں کے ملا زمین کو سر کاری وردی بھی ملتی ہے اور ماہانہ واشنگ الا ونس بھی ملتا ہے محکمہ ابتدائی و ثا نوی تعلیم خیبر پختونخوا نے در جہ چہارم ملا زمین کے لئے ور دی پہننے کو لازمی قرار دیا ہے مانیٹرنگ ٹی میں وردی نہ پہننے پر سزا دیتی ہیں تنخوا ہ میں کٹوتی ہو تی ہے مگر حال یہ ہے کہ سر کار کی طرف سے در جہ چہا رم ملا زمین کو نہ ور دی ملتی ہے نہ واشنگ الا ونس ملتا ہے یہ فرق یا تفاوت ہے ڈس پے ریٹی کے زمرے میں آتا ہے

کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں اس فرق کو ختم ہونا چاہئیے وردی والوں کو مسا ویا نہ اور یکساں مراعات ملنی چاہئیں، حکام بالا کے خطوط اگرچہ دوچار ہی ہیں تاہم مسئلہ وہی ڈس پے ریٹی والا ہے، گریڈ 20سے اوپر کے جو افیسر پو لیس، انتظامیہ اور عدلیہ میں نہیں ہیں ان کی ’’عاجزانہ‘‘ فریاد یہ ہے کہ وفاق میں گریڈ 20سے اوپر کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افیسروں کو اردلی الاونس ملتا ہے اور بلا تفاوت سب کو ملتا ہے اس الاونس کی حکمت یا لاجک یہ ہے کہ گریڈ 20سے اوپر کا افیسر عمر کے اس حصے میں ہو تا ہے کہ اس کو مدد گار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت کی حیثیت ماں جیسی ہے ماں اپنے بچے کو بے یار و مدد گار نہیں چھوڑ سکتی، وفاق کے علا وہ دیگر صو بوں میں اس پر عمل ہوتا ہے سب سے پہلے صو بہ سندھ کی حکومت نے اس پر عملدر آمد کیا تھا خیبر پختونخواہ میں یہ الاونس عدلیہ اور انتظا میہ میں خدمات انجام دینے والے افیسروں کو ملتا ہے ڈاکٹروں، انجینروں، ہیڈ ماسٹروں اور پروفیسروں کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کے کسی افیسر کو نہیں ملتا

یہ فرق، تفاوت یا ڈس پے ریٹی ہے جو پے اینڈ پنشن کمیشن کی سفا رشات سے متصادم ہے عدالتی نظا ئر کی خلا ف ور زی ہے خطوط کے مندر جا ت کو بلا کم وکا ست کا غذ پر اتار نے کے بعد خیال آیا کہ ہم کس کو مخا طب کر رہے ہیں، ہمارا خطاب کس سے ہے صو بائی حکومت کو ہم سے پہلے اس مسئلے کا علم ہے عدالتیں اگر چاہتیں تو اس کا سو موٹو نوٹس لے سکتی تھیں، منتخب نما ئیندے اگر چاہتے تو اسمبلی میں قرارداد لا سکتے تھے پھر خیال آیا کہ کیوں نہ سب کو مخا طب کر کے ایک چھو ٹی سی عرض گوش گزار کی جا ئے گذارش یوں ہو کہ باقی تما م جا ئز مسا ئل ہڑ تال، دھرنا، جلوس، ریلی اور شور شرابہ کے بغیر حل نہیں کئے جا تے، یہ مسئلہ ہڑ تال اور شور شرابہ کے بغیر حل کیا گیا تو ہم سمجھینگے کہ حکومت واقعی ماں کی طرح رحمدل ہو تی ہے۔

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!