میری اپ بیتاں
فریدہ سلطانہ ٰفَری
بچپن میں جب ہم کوئی کھیل کھیلتے تھے تو اس کو دلچسپ بنانے کے لئے لاشعوری طور پر زندگی کی کسی حقیقت سے وابستہ کرکے کھیلتے تو اس کا لطف ہی دوبالا ہوجاتا اور اس طرح ہم ا س میں مگن بھی ہوجاتے۔
ُٓٓاب جب زندگی کے اس دور میں جہاں جوانی کی عروج اور بچپن کا زوال ہے تو زندگی کے اْن قیمتی لمحات و واقعات کو حقیقت کی انکھ سے دیکھتی ہوں تو سخت حیرانگی ہوتی ہے کہ پلک جھپکتے میں بچپن کے وہ لمحات کہاں کھو گیے۔ اخر زندگی کا کوئی لمحہ تو ساکن ہو۔ کوئی حصہ تو اسکا لازوال ہو۔ پیچھے مڑکو گزرے ہوئے اْن لمحات پر جب نظر دوڑاتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کمرے کے ایک طرف کھڑکی سے میں باہر جھانک رہی تھی تیزاندھی اور اور بارش کے خوف سے میں نے ایک دم کھڑکی بند کردی اور اچانک سے سامنے کا منظر بدل گیا ہو۔
کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہم لڑکیاں بچپن میں اگر خود کو لاشعوری طور پر زندگی کی حقائق سے اگاہ نہ کرتے تو نجانے کیا ہوتا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ بچپن کی انہی کھیل کھیل میں پریکٹسز کے زرءعے لڑکیاں خود کو اہستہ اہستہ لاشعوری طور پر زندگی کی حقائق کے حوالے کر رہی ہوتی ہیں۔ بہت سے کھیلوں میں سے گڈے، گڑیا کی شادی ہمارے بچپن کی ایک مقبول ترین کھیل ہوا کرتی تھی جیسا کہ اجکل کے نوجوانوں کے لئے پب جی اور فری فایئر۔ جس طرح یہ بچے دنیا مافیا سے بے خبر دن رات اپنی صحت ،تعلیم، غرص سب کچھ داوپہ لگاکر اس میں لگے ہوتے ہیں ہم بھی اسی طرح مگن ہوا کرتے تھے بس فرق اتنا تھا کہ ہم نے اس وقت کچھ داو پر نہیں لگاےا ہوا تھا۔ پورا دن کھیل کر کھیل کھیل میں ہاتھ پاوں صاف کرکے اپنے گھروں کو لوٹتے تھے نہ کسی کی انکھیں خراب نہ ہار کر کسی کے زہنی دباو میں انے کا خطرہ ۔ نہی تعلیم کے متاثر ہونے کا اامکان۔ کیونکہ ہم لوگ بیچ میں وقفہ کرکے دوپہر کا کھانہ اور پھر مدرسہ، ہوم ورک سے فارغ ہو کر پھر اس کھیل کا حصہ بنتے تھے۔ خیر ہم لوگ بات کررہے تھے میرے گڑیا کی شادی کی۔
بچپن میں ہم سب من پسند سہیلیاں اکھٹے ملکر ہاتھوں سے گڑیا بنالیتے تھے۔ مجھے اج بھی یاد ہے میری والدہ نے ہم دونوں بہنوں کے لئے ایک ایک گڑیا بنالی۔ریشمی دھاگے سے اس کے بال بنا کر میرے دوپٹے سے اس کے لئے کپڑے سی لیے۔ خوش قسمتی سے میری گڑیا میری چھوٹی بہن کی گڑیا سے خوبصورت بن گئی اس کا یہ کہہ کر رونا مجھے اج بھی یاد ہے کہ میری گڑیا اتنی بد صورت بن گئی ہے اب اس سے شادی کون کرے گا۔ مگر میں یہ فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ میں نے اپنی گڑیا کبھی مہنگے داموں فروخت نہیں کی۔
ایک دن میں نے اپنے گڑیا کی دھوم دھام سے شادی کی تیاری کردی۔ کچھ عرصے بعد میں جب اپنے گڑیا سے ملنے اپنی سہیلی کے گھر گئی تو اس نے افسوس کے ساتھ بتایا کہ تمھاری گڑیا نہیں رہی کسی نے چوری کرلی شائد گڑیا کا گم ہونا یا ٹوٹ جانا اس وقت بھی شدید دکھ میں مبتلا کرلیتا تھا اور اج بھی جب کسی گڑیا کی موت یا خود کشی کی خبر اتی ہے یا کسی گڑیا کو اَسی سال کے بوڑھے کے ہاتھ شادی کے نام پہ فروخت کیا جاتا ہے تو فورا زہن ماضی کی طرف پلٹنے لگتی ہے اور یقین جانیے وہی درد و ہی تکلیف سینے میں جنم لینے لگتی ہے جو اج سے کئی سال پہلے اپنی گڑیا کے گم ہوجانے پر جنم لیا تھا۔
جاری