چترال ایک غریب اور پسماندہ علاقہ ہے جو اب دو ضلعوں پر محیط ہے۔ چترال میں زرعی زمین کم ہے مگر یہاں کی کوئی بھی پیداوار اپنی ایک الگ شناخت اور بہترین منفرد ذائقہ رکھتی ہے۔ یہاں سیب اور خوبانی کثرت سے پیدا ہوتے ہے اور سرکاری زرعی محکمہ اور درجنوں غیر سرکاری محکمے فعال ہونے کے باوجود ان سے کوئی پائیدار خوراک مربہ، شربت وغیرہ نہیں بنایا جاتا اور انگور اور سوکھے شہتوت سے بھی چوری چھپے دیسی نشہ آور عرقیات کے علاوہ کوئی فائدہ بخش مواد تیار نہیں کیا جاتا نہ ہی کسی ایسے کام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہاں کس چیز پر مقامی اور سرکاری سطح پر زور دیا جاتا ہے۔
اس غریب ترین خطے میں سال میں درجنوں جشن منائے جاتے ہیں جنکے لئے باہر سے بھی مدد آتی ہوگی۔ با اختیار ادارے اور حکمرانوں کی طرف سے اس علاقے کی احمق عوام کو ان جشنوں میں سارا سال مصروف رکھ کر انکو بے کاری، سُستی اور عیاشی کی طرف راغب رکھا جاتا ہے۔
چترال میں آنے والے بڑے مہمانوں کے سامنے اور ان درجنوں جشنوں میں چترال کی ثقافت کے مظاہرے کے طور پر کالاش لڑکیوں اور مسلمان مردوں کو نچایا جاتا ہے اور یہ تأثر دیا جاتا ہے کہ ہم بھی مغرب کی طرح صنف نازک کی آزادی اور بے پردگی کا ماحول رکھتے ہیں۔ کیا یہی ہماری ثقافت یے؟
پنجاب، کراچی وغیرہ سے آئی آزاد خیال عورتیں ہوٹلوں اور میدانوں میں چترالی ڈھول پر ناچتی ہیں تو انکو نشر کیا جاتا ہے کہ یہ چترالی ساز پر عورت ناچ رہی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اپنے خود غرضانہ جذبے کے تحت اس غریب خطے کو مغرب کی تقلید میں صرف عریانی اور عیاشیوں کی طرف ہی مائل رکھا جارہا ہے یا مغرب کی کوئی مادی ترقی کے مثبت اثرات بھی کوئی یہاں پیدا کرانے کی کوشش کر سکتا ہے؟
یہ چترالی ٹوپی ‘پکول’ بہادروں کی نشانی ہے۔ اسےسر پر رکھ کر چترالیوں نے مہاراجہ کشمیر کے سکھوں سے لڑائی کی، 1948 ء میں سکردو آزاد کرایا۔ اسکو سر پر رکھ کر احمد شاہ مسعود نے روس کا مقابلہ کیا اور طالبان نے امریکہ کی عالمی بادشاہت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا۔ یہ ٹوپی کسی نَٹ یا نٹنی کی نشانی نہیں ہے۔ اسکی تذلیل نہ کی جائے۔
اس پسماندہ اور سادہ اسلامی ماحول میں جمع کرنے کیلئے نت نئے گند ہی متعارف کرانا نہیں بلکہ کوئی صاف ستھرا کام، کوئی منصوبہ اور علاقے کے لوگوں کی ترقی، علم، غیرت، خودی اور محنت کو مستحکم کرنے کا کوئی سامان مہیا کرنا بھی حکومت اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔