اون اور کانٹے
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
معیشت، قرض اور سود کا اتنا ڈھنڈ ورا پیٹا گیا ہے کہ اب یہ الفاظ گھسے پٹے ہوئے لگتے ہیں پا کستانی معیشت، قرض اور سود کو ایک دانشور نے اون میں پھنسے ہوئے کا نٹوں کی مثال دیکر واضح کر دیا ہے مثال یہ ہے کہ کا نٹوں سے بھری ہری شاخ اون کے اندر پھنس جا ئے تو اس کو نکا لنا بڑا مشکل ہو تا ہے قرض اور سود بھی اون میں کا نٹوں بھری ہری شاخ کی طرح ہے قرض کا دھندا یا سود کا پھند ا گویا اون ہے پا کستان اس میں پھنسا ہوا ہے
چاروں صو بوں کے ساتھ وفاق کا بجٹ زیر بحث آتا ہے تو یہ مثال سامنے آجا تی ہے حکومت ایک ٹیکس کے بعد سپر ٹیکس لگا تی ہے تو اس مثال کی صداقت پر یقین آجا تا ہے ہم ہا شم خا ن سے سودی قرض لیکر پہلوان گل کے سودی قرض کی قسطیں ادا کر تے ہیں بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے کھا تے میں اڑا دیا جا تا ہے ترقی کے لئے جو کچھ بچتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابربھی نہیں ہوتا پریس کلب میں چار دوستوں نے ٹیکس نیٹ کا ذکر کیا تو چار باتیں سامنے آئیں، پہلی بات یہ دیکھنے میں آیاکہ سخت معاشی حالات، مشکل اقدامات اور سیاست کی جگہ ریاست بچانے کی مہم میں 34بڑے کا رخا نوں اور 58بڑی کمپنیوں پر ٹیکس نہیں لگا یا جا تا ان مگر مچھوں پر اگر ٹیکس لگا یا گیا تو قومی خزا نے کو سالانہ 400ارب روپے کی آمدنی ہوگی یہ بھی دیکھنے میں آیا 2000بڑے جا گیر داروں اور وڈیروں پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا ان کی زرعی زمینوں اور باغات سے آنے والی آمدنی پر اگر ٹیکس لگایا گیا تو حکومت کو 600ارب روپے کی سالا نہ آمدنی ہوگی
وفاق اور صو بوں میں 200ایسے ادارے اور دفا تر ہیں جن کا کوئی کام نہیں کسی زما نے میں ایک دفتر قائم کیا گیا تھا کر ایے پر بنگلے حا صل کئے گئے تھے، لو گ بھرتی ہوئے تھے پھر ان کا احوال کس نے نہیں پو چھا ایسے دفاتر کو بند کرنے سے قومی خزا نے کو 200ارب روپے کی نقد بچت ہو گی، گفتگو کے دوران یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ پا کستان ریلوے، واپڈا، پی آئی اے، سٹیل ملز اور پی ٹی ڈی سی جیسے سر کاری اداروں کے پاس ایک ہزارکھر ب روپے کی جا ئیدادیں موجود ہیں ان سب کی نجکاری سے پا کستان کے ذمے ہمارے دوستوں اور دشمنوں کا سارا قرضہ بمع سود ادا ہونے کے بعد قومی خزا نے میں بھاری رقم جمع ہو جا ئیگی گفتگو میں یہ بات بھی زیر بحث آگئی کہ ممبران اسمبلی اور کا بینہ ارا کین کی تنخوا ہ و دیگر مراعات کو بند کرنے سے قومی خزا نے کو سالانہ 200ارب روپے کی بچت ہوگی یہ سب ایسے کا م ہیں جو حکومت نہیں کرسکتی، یا کرنا نہیں چاہتی لے دے یہ بات رہ جا تی ہے کہ قربانی کے جن بکروں سے ٹیکس لیا جاتا ہے اس میں اور بھی اضا فہ کرو، تنخوا ہ لینے والوں پر مزید ٹیکس لگاو
ہم نے ایک ڈرا مے کے منظر میں منظور دانہ والا (معین اختر) کو دیکھا تھا جو نو کر کو50روپے انعام دیتا ہے اس کے پاس ٹوٹے نہیں ہیں سوروپے کا نوٹ ہا تھ میں لے کر نوکر سے کہتا ہے 50کے دونوٹ نکالو، نو کر 50کے دونوٹ نکالتا ہے منظور دانہ والا 50کا کے دونوں نوٹ ہاتھ میں لیکر اپنا 100کا نوٹ جیب میں رکھتا ہے، 50کا ایک نوٹ نوکر کو دے کر کہتا ہے یہ وہ نوٹ ہے جو تم نے ابھی مجھے دیا تھا 50کا دوسرا نوٹ اسکو دیتے ہوئے کہتا ہے یہ لو تمہارا خصوصی انعام، اب جاو کام کرو ہماری حکومت نے ملازمین اور پینشروں کی تنخواہ اور پنشن میں جو اضافہ کیا وہ زیادہ سے زیا دہ 55ہزار روپے تھا، تنخواہ اور پنشن پر جو ٹیکس لگایا وہ کم از کم 60ہزار روپے ہے اب کوئی ریا ضی دان حساب کر کے بتائے کہ تنخواہ اور پنشن میں اضا فہ ہوا یا کمی ہوئی ہماری ہر ی شاخ کانٹوں سے بھری ہے اور قرض کے اون میں پھنسی ہوئی ہے ہم اس دلد ل سے کب نکلینگے یہ سر بستہ راز ہے کوئی نہیں جا نتا۔