Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

باد شاہ اور ان کا عہد

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

کسی زمانے میں بڑے بڑے باد شاہ ہوا کر تے تھے ان کا عہد اور زمانہ ہوتا تھا آج ان کی کہانیاں رہ گئی ہیں ان کہانیوں میں جمہور کے لئے سبق ہے نئی نسل کے لئے عبرت ہے ایک باد شاہ کا ذکر نسیم حجازی کے نا ول میں ہے سفید جزیرہ 1954ء میں لکھا گیا 1956ء میں شاءع ہوا ناول کا مرکزی کردار کنگ سائمن ہے جس کو خطرناک حادثے کے بعد اپریشن تھیٹر میں بندر کا دماغ ٹرانسپلا نٹ کرکے بچالیا گیا تھا، کنگ سائمن ایک دن اپنی کا بینہ توڑ دیتا ہے وزرائے کرام کو گھر بھیج دیتا ہے اگلے دن ایک وزیر فریادی بن کر دربار میں آتا ہے اور فریاد کرتا ہے میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں بے روز گار ہوا تو وہ کیا کھا ئینگے میری وزارت بحال کی جائے

باد شاہ پوچھتا ہے وزیر بننے سے پہلے تم کیا کرتے تھے وہ کہتا ہے میں جیل میں قید تھا، باد شاہ پوچھتا ہے کیوں قید ہوئے تھے وزیر کہتا ہے قتل کے جرم میں قید ہوا تھا یہ سن کر باد شاہ کہتا ہے تم تو کام کے آدمی ہو، تمہا ری وزارت بحا ل کی جا تی ہے راحت اندوری کا شعر ہے

چوروں اچکوں کی کرو قدر
معلوم نہیں کون کس سر کار میں آئے

خراسان میں کنگ سائمن کی طرح ایک باد شاہ تھا اُس کو خوشامدی بہت پسند تھے ایک دن باد شاہ کو خیال آیا کہ مجھے ایسے کپڑے پہننے چاہیں جو دنیا میں کسی نے نہ پہنے ہوں، منادی ہوئی، انعامات کے اعلا نا ت ہوئے درزی اور جولا ہے آتے رہے لیکن کسی کا ڈیزائن باد شاہ کو پسند نہیں آیا آخر میں سب سے بڑا خو شامدی آیا اُس نے کہا مجھے ایک جولا ہا ملا ہے جو درزی بھی ہے اُس کے پاس ڈیزائن ہے جو سب سے نرالا ہے یہ ایسا لباس ہوگا جو ایسے لوگوں کو نظر نہیں آئیگا جو اپنی ماں باپ کی سچی اولاد نہ ہوں جن کے نسب میں کھوٹ اور دو نمبری ہو باد شاہ نے جولا ہے کو حاضر کرنے کا حکم دیا

جولا ہے نے ہا تھ ہلا کر کپڑا دکھا یا، ڈیزائن دکھایا اور لباس کا خاکہ دکھایا مگر باد شاہ کو نظر نہ آیا اُس نے ماں باپ کی سچی اولاد ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے مان لیا کہ ایک نمبر لباس ہے، وزیر نے تصدیق کی، درباریوں نے تالی بجا کر خوشی کا اظہار کیا ایک دن مقر ر ہوا مقررہ دن باد شاہ کا ڈیزائینر لباس لیکر آئیگا باد شاہ کو تخلیہ میں وہ لباس پہنایا جو کہیں تھا ہی نہیں، باد شاہ ننگا ہو کر دربار میں آیا، لباس کسی کو نظر نہیں آرہا تھا لیکن اپنا نسب چھپانے اور خود کو نجیب الطرفین دکھا نے کے لئے سب نے لباس کی تعریف کی باد شاہ کو مبارک باد دی، حرم میں ملکہ عالیہ اور کنیزوں نے بھی باد شاہ کو بے لباس دیکھا مگر اپنی رہی سہی عزت بچا نے کے لئے باد شاہ کو مبارک باد دی یوں خوشا مدیوں میں گھیرا ہوا باد شاہ سب کے سامنے بے لباس ہوا

خوشامد ایسا ہتھیار ہے جو بادشاہ کی آنکھیں بند کر دیتا ہے اپنی تعریف سننے کا عادی آدمی ہمیشہ بے لباس ہو تا ہے مگر غور نہیں کرتا، ایک منگول باد شاہ کا قصہ سب سے عجیب ہے اس کے گرد بھی خوشا مدیوں کا ٹو لہ تھا جو ہر وقت باد شاہ کو ’’عقل کل‘‘ ہونے کا سندیسہ دیتا تھا باد شاہ نے کہا اگر پل پر ٹیکس لگا دیا جا ئے تو کیسا رہے گا

خو شامدی ٹولے نے کہا عالی جاہ! بہت اچھا ہوگا، باد شاہ نے ٹیکس لگایا جو دس اشرفیوں کے برا بر تھا، رعایا ٹیکس سے تنگ آگئی خوشامدی ہر روز کسی نہ کسی دیہاتی کو باد شاہ کے سامنے پیش کرتے وہ ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ کرتا خوشا مدی تائید کر تے ٹیکس 20اشرفی کے برابر ہوا، بادشاہ نے سوچا اگر ٹیکس لیتے ہوئے پل عبور کرنے والے کو جوتا مارا جا ئے تو کیسا رہے گا خو شامدیوں نے واہ، واہ ،واہ، مرحبا، مر حبا کے نعرے لگا ئے ایک شخص جوتے مارنے پر مقرر ہوا پھر خوشامدیوں نے چند دیہاتیوں کو وفد کی صورت میں باد شاہ سے ملوایا، وفد نے درخواست کی جوتا ما رنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا ئے، باد شاہ نے جوتا ما رنے والوں کی تعداد بڑھائی درباریوں نے خوشی کا اظہار کیا، باد شاہ بہت خوش ہو الیکن یہ خو شی دیر پا ثا بت نہیں ہوئی

اگلے دن قلعے پر حملہ ہوا، رعایا نے باد شاہ کو تخت سے اتار کر ملک بدر کر دیا اور اپنے لئے نیا باد شاہ منتخب کیا جس نے خو شا مدیوں کے سر قلم کر دیے، آج بھی چند مخبو ط الحواس لو گ یہ خیال کر تے ہیں کہ ہمارا زما نہ کنگ سائمن اور دوسرے بادشاہوں کا زما نہ ہے، ہم اسی زما نے میں جی رہے ہیں۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!