چراگاہ سے کال
تحریر: شاکریز خان
وادی چترال کے اندر واقع ریشن ایک خوبصورت اور تاریخی گاوں مانا جاتا تھا۔ اس گاوں کی تاریخی حیثیت اب بھی برقرار ہے کہ یہاں کے پولو گراونڈ میں لفٹننٹ ایڈورڈ اور لفٹننٹ فوولر 1895 میں مقامی پہلوان محمد عیسیٰ اور دوسرے بہادروں کے ہاتھوں گرفتار کئے گئے۔
مگر اصل کہانی موسمی تبدیلی سے ریشن کی مدھم پڑتی ہوئ حسن کی ہے۔2010 پھر 2015 اور 2020 کے سال گویا ریشن گول کی قہرینی کے سال تھے۔چشم بد سے الله رہی سہی ریشن کو بچائے رکھے۔ریشن نالے میں اس قسم کے سیلاب شاید کسی زمانے میں آیا ہو مگر اب کسی کو یاد نہیں۔ اب ریشن نالہ مقامی ابادی سے ناراض ہے۔ وہ دبی زبان میں اپنے مالکان سے مدد کے لئے پکارتی رہی۔مگر کسی نے سنی نہ ہی کوئ اس نالے کے دامن میں واقع بیمار چراگاہ کی مزاج پرسی کے لئے وہاں تک جانے کی زحمت اٹھائ۔ پرائے لوگوں کا یہاں انا اور گرمیوں میں تا دیر اپنے موشیوں سمیت قیام کرنا معمول بن گیا اور ریشن والے خوش اسلئے کہ ان کے چند بکریوں کی رکھوالی بھی یہ پرائے لوگ یعنی گجر کر رہے ہیں۔
مگر کسی کو خبر نہیں تھی کہ اس طرز عمل سے چراگاہ کی بیماری میں اضافہ ہورہاہے۔ ایکطرف پکانے اور خود کو گرم رکھنے کے لئے گجر یہاں جھاڑی بوٹیوں کو صاف کررہے ہیں۔ دوسری جانب چراگاہ میں موجود گھاس پھوس کا صفایا ان کے لاتعداد مویشی کر رہے ہیں۔جبکہ زمین کی سطح جانوروں کے روندنے سے بری طرح زخم ہورہی ہے۔بری خبر یہ ہے کہ یہ مرض چترال کے طول و عرض میں موجود سب چراگاہوں تک پھیل گئی ہے۔
ریشن میں ایک دن کسی کو چراگاہ سے کال آتا ہے یہ گجر کی طرف سے ایمرجنسی کال ہے۔کہتا ہے شدید سیلاب گاوں کی طرف امڈ کر چل پڑا ہے۔ فوری جان بچاو۔کال وصول کرنے والا بھی پھرتی دیکھاتے ہوئے ہر طرف منادی کراتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہی ہوتا ہے جو ہونا تھا۔ جانی نقصان کے بیغیر ہر طرف بربادی کا منظر ہوتا ہے۔ گاوں کے لوگ قدرت سے اس تباہی کا شکوہ کرتے ہیں۔ مگر ممنون ہیں تو اس گجر کے جس نے ایمرجنسی کال دیا۔ اور کیوں نہ ممنون ہوتے جس نے جانیں بچائی۔
ابتک تو لوگ نظر انیوالا تباہی کا رونا رو رہے تھے۔ مکانیں۔ دکانیں۔ فصلات اور عبادت گاہیں سب متاثر ہوئے تھے۔ سیلاب نے جس شدت سے دریائے چترال کو ٹکرایا تھا تو دریا بھی بپھر کر گاوں کے نشیبی دامن کو اسی زور سے جنجھوڑ کے اگے نکل گیا ہے اس حقیقت کی کسی کو خبر نہیں تھی۔
اس کا پتہ اسوقت ہوا جب اگلے سال دریا نے ذرا اور رخ بدلکر ریشن کے دامن سے ٹکرانے کا عزم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس افسانوی گاوں کا ایک حصہ چترال شندور روڈ کے ساتھ دریا برد ہوگیا۔ یوں اپنی افسانوی حسن بھی چراگاہ کی ہیماری پر قربان کر دیا۔ مگر ریشن والو اور تمام چراگاہوں میں گجر رکھنے والو سن لو میں بے چارے گجروں کی تضحیک نہیں کر رہا۔ان کو بھی جینےکا حق ہے۔ مگر سب کو اپنی حدود میں رہکر دوسروں کو بھی جینےکا حق دینا چاہئیے۔ جس گاوں میں گجر رکھنا ہے وہاں اس بات پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ کتنے مویشیوں لیکر ا تا ہے ورنہ ہر ایک گاوں کا یہی حشر ہوگا اور ہم نہ صرف اپنی بیتی ہوئ حسن وجمال کو روتے رہینگے بلکہ ہماری باعزت روایتی ذرائع معاش بھی ہاتھ سے جاتے رہینگے اوپر سے نت نئے وبا ائیں گے