Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

سیاست نہیں تفریح

اعجاز احمد

ماہ مارچ کے دوران بہت محترم لوگوں کے انٹرویوز دستیاب ہونے کے باوجود اپنے یوٹیوب چینل میں کچھ نہیں ڈالا اور یہ سوچا کہ ملکی سیاست ہرگھنٹے میں بدل رہی ہے اور گرم ہے تو ہماری ویڈیوز دیکھنے کا وقت کس کافر کو ملے گا، بالکل درست فیصلہ نکلا۔ وہ ناظرین جو ایک ہفتہ تاخیر پر ہی خبر لینے پہنچ جاتے تھے پورا مہینہ گزرنے کے بعد بھی کسی نے ایک ایس ایم ایس نہیں بھیجا کہ پتہ کرائیں  ویڈیوز کیوں نہیں آرہی ہیں۔ اندازہ لگائیں لوگ ہمارے کتنے سیاسی ہوگئے ہیں اور ہماری سیاست بھی کتنی سیاسی یعنی افراتفری کا شکار ہوگئی ہے۔

پرویز مشرف کے بارے کہاجاتاہے کہ انہوں نے جب دیکھا کہ لوگوں کی توجہ سیاسی معاملات کی طرف زیادہ ہوگئی تو وہ انٹرٹیمنٹ کو فروغ دینے پر امادہ ہوئے، روشن خیالی کا نعرہ لگایا اور ملک میں جدیدیت لانے کی کوششیں کیں۔ پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں پڑھے لکھے لوگوں کی بہتات نہیں ہے پھر بھی افتخار ٹھاکر کو مغرب سے اداکاری کی تربیت لینے والے چند لوگوں میں شمار کیا جاتاہے، ٹھاکر سے پنجابی تھئیٹر میں بڑھتی ہوئی عریانیت کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ پہلے تھئیٹر میں کسی اداکارہ کے بازو دکھانے کیلئے بھی سینسر بورڈ والوں کی منتیں کرنی پڑتی تھی۔ انہوں نے بھی یہ الزام مشرف پہ لگایا کہ مشرف نے انتہاپسندی کا مقابلہ تفریح میں عریانیت ڈال کر کرنا چاہتے تھے۔ مشرف کی کوششیں لوگوں کو سیاست سے تفریح کی طرف تو نہ لے جاسکیں البتہ پنجابی تھئیٹر کوعریاں کرگئیں۔

اقبال احمد کے بارے ان دنوں ہی کہیں پڑھا تھا کہ وہ بھی پاکستانیوں کی ضرورت سے زیادہ سیاست زدہ ہونے پر نالاں تھے۔ اقبال صاحب کو نومس چومسکی اور ارون دتی رائے جیسی شخصیات کا ہم پلہ مصنف سمجھا جاتاتھا، انہیں نواز شریف پاکستان لائے اور ان  کی بصیرت سے فائدہ لینا چاہتے تھے، بدقسمتی سے 1999ء میں ان کا انتقال ہوا۔ پاکستان میں قیام کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ کیلیفورنیا کی کس چیز کی یاد آرہی ہے تو ان کا جواب تھا کہ گفتگو، گب شپ کی۔ انہیوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں کسی موضوع پر کوئی بات شروع ہونے کے چند ساعتوں بعد سیاست ّمیں جانکلتی ہے۔ لوگوں کے پاس ان کے اپنے شعبے میں کہنے کو زیادہ کچھ مواد دستیاب نہیں ہے۔

ہم ویسے بھی ضرورت سے زیادہ سیاسی تھے تو اوپر سے عمران خان جیسے سیلبرٹی کو سیاست میں (مبینہ طورپر) زبردستی مسلط کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہمارے ہاں سیاست میں کسی گلیمرس آدمی کو لانا ہی نہیں چاہئے، ہمارا وزیراعظم شہباز شریف کی طرح تھکے ہوئے چہرے والا آدمی ہونا چاہئے اور اسکی طرف دیکھنے سے ایسا نظر آنا چاہئے کہ یہ سیاست کوئی مشکل چیز ہے اور ہر کوئی اسے نہیں سمجھ سکتا۔ یہ امریکہ میں شوازنیگر اور یوکرائن میں زیلنسکی کو سیاست میں اتارنے کا مقصد مذکورہ ملکوں کے نوجوانوں کو سیاست کی طرف راغب کرنا تھا۔ ہمارے ہاں الٹ ہے، ہمارے لوگوں کو تفریح کی طرف دھکیلنا ایک چیلنج سے کم نہیں، ہم تفریح بھی سیاست میں ہی ڈھونڈتے ہیں۔ پہلے ہی ہمارے روئیے سیاست زدہ ہوگئے ہیں۔ یہ عمومی بات نہیں، ہم ضرورت سے زیادہ سیاسی ہوگئے ہیں۔

آج اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، ہر کوئی سیاسی سائڈ لے چکا ہے وہ میڈیکل کا سٹوڈنٹ ہو یا انجینئرنگ کا، مزدور ہے یا سرکاری ملازم، دکاندار ہے یا بیروزگار۔۔۔ وہ دن میں اپنےچند قیمتی گھنٹے ضرور سیاست کی نذر کردیتاہے کیونکہ ہمارے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں یا انٹرٹینمنٹ کو زندگی میں کوئی اہمیت نہ دینے کی ٹھان رکھی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے بعد شائد دنیا کی کسی سوسائٹی میں سیاست کے متعلق روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز بنتے ہوں۔ ہر آدمی سیاست پہ بات کرتاہے، کرنٹ افیئرز کے ٹالک شوز تفریحی ڈراموں سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں، آج سے کچھ سال پہلے جس چینل کے ساتھ ‘نیوز’ کا سابقہ نہ لگتا اسے اشتہار نہیں ملتا تھا، پھر کچھ انٹرٹینمنٹ چینلز نے نہایت کامیاب ڈارمے بنائے جن میں سب سے اہم ‘قدوسی صاحب کی بیوہ’ شامل ہے نے ناظرین میں انٹرٹیمنٹ چینلز کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ( اس ڈرامہ سیرئل کا ذکر بطور خاص اسلئے کیا کہ اس پر شائع شدہ پیپر پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا) ۔ اس کے علاوہ تاحال ایسا کوئی ڈرامہ پاکستان کے انٹرٹیمنٹ چینلز نے نشر نہیں کیا جو معاشرے کے زیادہ سے زیادہ طبقے کو اپنی طرف راغب کرسکے۔ خواتین کی دلچسپی کیلئے کہانیوں پر مشتمل ڈرامے بنتے ہیں، دیکھے بھی جاتے ہیں لیکن یہ سیاست کی جگہ لینے کی سکت نہیں رکھتے۔

خانصاحب (حالیہ سابق وزیراعظم) نوجوانوں کی اس سیاست زدگی کو پہلے سال ہی بھانپ گئے تھے اس لئے ارطغرل وغیرہ دیکھنے کا مشورہ دیا، اس کا بھی عجیب اثر ہوا، کیونکہ پاکستانیوں نے ڈرامہ ارطغرل کو بطور تفریح نہیں دیکھا۔ لوگ مزید ٹینشن میں مبتلا ہونے لگے۔ چھوٹے بچوں میں تلواروں سے کھیلنے کا جنون پیدا ہوگیا، خواتین نے ارطغرل ڈرامے کے کرداروں کو اپنے حالات کے مطابق تشریح کرنے میں مبتلاہوگئیں، اس ترک ڈرامے میں کام کرنے والی اداکاراؤں کے انسٹاگرام اکاؤنٹس پر لوگوں کے دل ٹوٹے۔

تفریح کی صنعت کافی پہلے سے روبہ زوال ہے۔ ہمیں یونیورسٹی (2006ء) میں ایک کلاس کے دوران بتایا گیا کہ پورے پاکستان میں کل 600 سینما ہالز ہیں اور دوسرے طرف اس وقت صرف ایک ممبئی شہر میں 700 سینماہالز تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ تب سے ہمارے سینما ہالوں کی تعداد میں کوئی اضافہ ہوگیا ہے۔ کھیلوں میں صرف کرکٹ میں انوسٹمنٹ نظر آرہی ہے، ہماری ہاکی ٹیم باہر ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کرتی کیونکہ فنڈ کی قلت ہے، تو لے دے کے ہمارے پاس تفریح کا سامان صرف سیاست میں رہ گیاہے۔ خانصاحب کو بلاول بھٹو کا مزاق اور نقل اتارتے ہوئے ہم سب نے دیکھ لیا۔ فواد چوہدری پارلیمنٹ کے اندر وہ جگت مارتے تھے جنہیں پرفارمنگ آرٹ کی گیلری میں بھی اجازت نہ ہو۔ پارلیمان کے اندر مراد سعید کے اوپر وہ کمنٹ بھی ہم نے سن لئے جنہیں تین کنوارے اپنے ہاسٹل کے کمرے میں بھی آپس میں کرتے شرماجائیں۔ اس صورتحال میں سینماہالوں پر اپنا پیسہ کون برباد کرے، جب محض پانچ سوروپے ماہوار (کیبل فیس) کے عوض نوے کے قریب ٹی وی چینلوں میں روزانہ آٹھ بجے  سےگیارہ بجے تک تفریح دستیاب ہے۔

بعض ہُشیار چینلز نے عوام کی اس سیاست زدگی کا مزید فائدہ یوں لیا، کہ پرائم ٹائم میں باقاعدہ کامیڈی پروگرام شروع کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوگئے۔ جیونیوز کا ‘ہم سب امید سے ہیں’ دنیانیوز پر ‘حسب حال’ چینل 24 پر ‘کیونکہ جمہوریت ہے’ اسطرح دیگر چینل میں ‘مزاق رات’ وغیرہ آج بھی چل رہے ہیں، المیہ دیکھئے ان پروگراموں کا نوے فیصد مواد ‘سیاست’ ہے۔ ان پروگراموں کا آغاز انور مقصود کے ‘لوز ٹاک’ سے ہوا تھا، تب سے سیاسی پروگرام مقبول ہونے لگے۔

یار اس سیاست میں کیا رکھا ہے جس نے ہر لمحے دل ہی توڑنا ہے ، یاد کیجئے گزشتہ دو ہفتوں کی روداد۔۔ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل باجوہ ایکسٹینشن چاہ رہا ہے اور خانصاحب کے خلاف جو بھی ہورہاہے اس کے پیچھے بھی ‘وردی’ ہے۔ گزشتہ روز ان کے شعبہ تعلقات عامہ کی پریس کانفرنس ہوئی ایسی کسی ایکسٹینشن کو رد کردیا گیا، ہمیں بتایا کہ خانصاحب نے استعفی دینے کیلئے شرط رکھی ہے کہ اپوزیشن (حالیہ حکمران جماعتیں) ان پر نیب کیس نہ بنانے کی ضمانت دے، ابھی تک اس بات کی تصدیق نہ ہوسکی۔ ہمیں بتایا کہ پاکستان کی اپوزیشن امریکہ سے پیسے پکڑ چکی اور ریاست مدینہ کے خلاف سازش کررہی بعد ازاں پتہ چلا کہ ریاست مدینہ کے ڈان نے خود توشہ خانے میں کافی ڈانڈی ماری ہے۔ جب یہ الزام سوشل میڈیا میں آنے شروع ہوئے کہ خانصاحب نے سعودی ولی عہد کی جانب سے تحفے میں ملی گھڑی بیچ دی ہے تو میں نے کہا کہ یار کم ازکم الزام تو ڈھنگ کا لگالو، ایسا کیسے ہوسکتاہے؟ پھر ان کے بھونپو، جناب فواد چوہدری نے تصدیق کردی اور نہایت بے شرمی سے جسٹیفائی کرنے کی کوشش کردی کہ کسی سے ملے تحائف بازار میں بیچنا جرم کیوں ہے؟ہمارا ایلیٹ نہایت بے شرم ہے یار۔ یا شرم صرف اس کو آتی ہے جس کے پاس بے شرمی کرنے کا موقع نہیں آتا۔

اس واقعے کو میرے استاد جناب ضیغم خان کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں کہ سیکنڈ ہینڈ کتب کی دکان میں کتابیں ڈھونڈتے ہوئے امجد اسلام امجد کی کتاب پر نظر پڑی، اس کتاب پر امجد صاحب کے دستخط موجود تھے اور انہوں نے یہ کتاب اپنے ایک دوست کو تحفہ دیتے ہوئے سائن کیا تھا۔ ضیغم صاحب نےکتاب خریدی اور موقع ملنے پر امجد صاحب کو پیش کردی کہ آپ نے جس دوست کو مفت دیدی اس نے بیچ دی تھی آپ کی کتاب۔ امجد صاحب حسن ظن رکھنے والا آدمی، فورا کہا نہیں ایسی بات نہیں، میرے دوست کو شرمندہ نہ کریں، وہ ایسا نہیں کرسکتا، دراصل یہ ”بیگمات” کے کرتوت ہیں۔

اب عوام سے گلہ نہیں ہے، پچھلے کچھ ہفتوں کے سیاسی واقعات ملاحظہ کیجئے اگر وہ کسی کامیڈی پروگرام اور کامیڈین کے ڈائیلاگ سے کمتر ہوں تو عوام سے گلہ بنتاہے کہ وہ ٹی وی سے چپکے بیٹھے کیوں رہتے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی پنجاب میں سپیکر کو ناکافی سمجھ کر وزارت اعلی کیلئے کاوش کرتے کتنے ڈرامے کئے، ٹک ٹاکر بھی نہیں کرسکتے ایسا۔ چوہدری شجاعت کواسی لئے کہنا پڑا کہ “پرویز لوٹ مار کرتے کرتے خود لُٹ گیا”۔ اے ار وائی کے مالک سلمان اقبال، جو کہ کراچی کنگز کا بھی مالک ہے نے تجویز دی کہ لوگوں نے اس سیاست زدگی کے عروج سے واپس لانے کیلئے فوری طور پی ایس ایل کروانے کا اعلان کرنا چاہئے، ورنہ لوگ پاگل ہوجائینگے۔ سلمان صاحب کی تجویز اچھی لیکن وہ یہ کہہ کر اس بات سے بری الزمہ نہیں ہوسکتے کہ ان کے چینل کا اس میں کردار لوگوں میں سیاست ٹھونسنے میں کچھ کم نہیں۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!