Site icon

مثالی استاد ۔ مثالی معاشرہ

Prof Rahmat Karim Baig

پروفیسر رحمت کریم بیگ

محکمہء تعلیم کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ تعداد کی افراد پر مشتمل ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ تعداد اساتذہ کی اور پھر دفتری عملے کی ہوتی ہے یہ عملہ اپنی روٹین کی دفتری کاموں کو بروقت اور کھبی بے وقت انجام دیتا ہے یہ ان کی اور افسر بالا کی مرضی ہوتی ہے مگر استاد نام کی جو مخلوق ہے اس کا کام ٹھیک وقت کا متقاضی ہوتا ہے۔

ہمارے محکمہء تعلیم میں استاد بھرتی کرنے کے طریقے ہر حکومت کی مرضی پر بدلتے رہتے ہیں ، انگریزوں کے یہاں سے چلے جانے کے بعد کئی سالوں تک وہی طریقہء کار برقرار رہا، پھر عوامی حکومتوں نے اس میں تبدیلیاں کرنی شروع کیں اور بدلتے بدلتے اب کیا سے کیا ہوگیا ہے، جو حضرات استادی کے پیشے سے وابسطہ ہیں ان میں سے ہر ایک کا الگ تجربہ ہے میرا مطلب بھرتی ہونے کے عمل کا ہے نہ کہ استادی کا کہ کل کے استاد کئی کلاسیں پڑھاتے تھے اور ڈیوٹی کا سارا وقت سکول کے اندر گذار کر آخری گھنٹی کے ساتھ سکول کی گیٹ سے باہر آتے تھے جبکہ پچھلی تین دھائیوں سے اکثر اساتذہ کرام دن میں دو یا تین کلاس پڑھاتے ہیں اور پھر جاکر اپنی دکان چلانے لگے یا سیاسی پارٹی کے دفتر میں جا کر سیاست کرتے ، پارٹی کے لئے پروپیگنڈا مہم چلاتے ، سیاسی لٹریچر تقسیم کرتے تھے اسی لئے موجودہ حکومت نے سکول مانیٹرینگ اور بائیو میٹرک نظام نافذ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

استاد معاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ ہے دوران استادی اسے خود کو بچوں کے لئے ایک مثال بنانا چاہیئے، اس کا لباس، اس کی بول چال، اس کی فرض شناسی، کلاس کے اندر اس کی طلباء پر توجہ وغیرہ سب مثالی ہونا چاہئے، اسے سیاسی گفتگو سے ہر ممکن حد تک پرہیز کرنا چاہئے، اسے مسلکی معاملات سے بھی دور رہنا چاہئے، اسے برادری کے معاملات کو بھی ایک طرف رکھنا چاہئے، ان معاملات میں ملوث ہوکر وہ خود کو متنازعہ بنا دیتا ہے، استاد بھرتی کرتے وقت ان تمام میرٹ لیسٹ والوں کی اس بنیاد پر میڈیکل چیک اپ لازمی ہونی چاہئے کہ کہیں یہ منشیات کے عادی تو نہیں ورنہ ان کو میرٹ لیسٹ سے خارج کرکے منشیات کی عادت سے پاک افراد کو منتخب کرنا چاہئے، اور موجودہ اساتذہ میں سے جو جو نشے کے عادی یں ان کی سروس اگر پینشن کے قابل ہے تو ان کو جبری پنشن پر استادی سے فارع کیا جائے اور جن کی سروس پنشن کے حد کو نہیں پہنچی ان کو فارع کر دینا چاہئے تاکہ نئے نسل ان کی وجہ سے اس لغنت سے بچ سکے اور اس کا اطلاق دوسرے محکمہجات پر بھی ہونا چاہئے

کلاس روم کے اندر بچے اس کی ہر حرکت کا مشاہدہ کرتے ہیں اس لئے کلاس روم میں استاد کو نسوار یا سگریٹ سے لطف اندوز نہیں ہونا چاہئے ۔ کلاس روم کے چالیس یا پینتیس منٹ طلباء کی امانت ہیں اور یہ منٹ بہت قیمتی ہیں یہ سارے منٹ طلباء کی لکھائی، ان کی تلفظ کی درستی، ان کی دوسری کمی کو درست کرنے میں لگا کر گھنٹی بجتے ہی کلاس روم سے نکلنا چاہئے تاکہ دوسرے ٹیچر کا پورا وقت اس کو مل جائے،بعض اساتذہ اپنی کلاس میں لیٹ داخل ہوکر پھر دوسرے پیریڈ کا کچھ حصہ ہتھیا لیتے ہیں یہ بھی بری عادت ہے اور پابندی وقت کے اصول کی خلاف وارزی ہے، وقت کی پابندی سب سے اہم ہے اور بچے اس سے سبق لیتے ہیں، کام چور استاد کی کھبی بھی اور کہیں بھی قدر نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی نگاہ میں مشکوک اور نا قابل اعتبار ٹیچر کے زمرے میں گنا جاتا ہے۔

ایک با کردار استاد ہونا بہت سے او صاف کا متقاضی ہوتا ہے، ملازمت الگ چیز ہے، بے روزگاری کی لغنت سے تنگ آکر ایک نوجوان سکول میں ٹیچر بننے پر خود کو مجبور پاتا ہے کہ یہی ایک راستہ اس کے پاس رہ جاتا ہے وہ اس پیشے کو مقدس سمجھ کر اختیار نہیں کرتا اس لئے اس کے اندر استادی کی بنیادی صفات نہیں ہوتیں ، مغرب میں استاد کا مطلب روزگا ر ہے ان کے ہاں اخلاقیات کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں ہوتا صرف ڈیوٹی کرنے کی بات ہوتی ہے کورس پڑھانے کی بات ہوتی ہے، ان کے سکولوں میں مذہب اور اسکی اہمیت کا کوئی مقام نہیں ہے جبکہ ہم مذہبی طور پر اپنے بچوں کو کورس کی کتابوں کے ساتھ اخلاقیات پڑھانے کے پابند ہیں ، سچائی، دیانتداری، ہمدردی، نظم و ضبط، صفائی، ماں باپ اور اساتذہ کی تابعداری، ہر قسم کی برائی سے اجتناب وغیرہ ہمارے ذمے ہے اور یہی تربیت ہے تعلیم کو ر س کی پڑھائی ہے اور تربیت اخلاقیات کی تعلیم ہے جو استاد صرف کورس پڑھاتا ہے اور اخلاقیات کو مد نظر نہیں رکھتا وہ استاد نہیں بلکہ محکمہء تعلیم کا ملازم ہے استاد کے درجے کا مستحق نہیں، اس لئے اساتذہ کی ہر سال تجدیدی کورس ہونی چاہئے اور ان کی زمہ د اری ان کو بار بار یاد کرانی چاہئے ورنہ معاشرہ بگاڑ کی طرف جائیگا اور نتائیج بہت خراب نکلیں گے اور پاکستان اسلامی ملک نہیں بن سکے گا۔

Exit mobile version