مدثر کی دھائی
بشیر حسین آزاد
انسانوں کی بستی میں جب
میری پیدائش ہوئی تو مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کون ہوں کس کا کیا لگتا ہوں ۔۔میری ماں کون ہے باپ کون ہے۔ میں ایک عورت کی چھاتی سے دودھ پیتا ایک اور عورت مجھ سے محبت کرتی ۔مجھے بہلاتی پھسلاتی بلایں لیتی اس شفیق عورت کے لیے میری ماں کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو ہوتے ۔اس بھرے پورے گھر میں، میں پرورش پاتا گیا انسانوں کی بستی میں انسانوں کے ہاتھوں میری تربیت ہوتی گئی ۔
ادھر ادھر سے لوگ میرا نام پکارنے لگے میرا نام مدثر رکھا گیا تھا میں ایک خدا ترس متمول اور معزز شخصیت شاہ عظمت کے گھر پرورش پا رہا تھا انھوں نے اور ان کی بیگم صاحبہ نے مجھے اپنی اولاد سے زیادہ لاڈ پیار میں رکھا تھا مجھے میرے بارے میں اور کچھ پتہ نہیں تھا البتہ اپنے ساتھی بچوں کو “ابو” کہتے ہوئے سن کر عجیب لگتا کیونکہ میری ماں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ کوئی شخص میرے بھی ” ابو” ہیں۔ جب میں فہم و ادراک کی سرحد پہ پہنچا تو پتہ چلا کہ مسلہ میرے ساتھ کچھ اور ہے ۔میری صرف ماں ہے اور درندوں کے معاشرے کا ایک فرد جس کا مجھے بیٹا ہونے کی نسبت ہے قصور پنجاب میں رہتا ہے۔
قصہ یوں تھا کہ میرے نانا اور نانی شاہ عظمت کے گھر میں رہتے تھے ان کو اس گھر میں ایک خدمت گار اور نوکر کی حیثیت نہیں گھر کے فرد کی حیثیت حاصل تھی ایک مدت گزری تو انھوں نے یہ گھر چھوڑ کر اپنے لیے کرایے کا مکان لے لیا اور وہاں رہنے لگے ۔۔میری ماں جوان تھی معاشرے کے درندوں میں سے ایک درندہ بکر آباد میں رہتا تھا اس کا نام محمور تھا وہ چترال کی معصوم عورتوں کا نیچے شہروں میں رشتہ کراتا ان کو بھیجتا نیچے شہروں قصبوں اور دیہات سے لوگ رشتے کرنے آتے وہ ان کا رشتہ کراتا ان کی کارتوتوں کی بدولت چترال کی بے قصور لڑکیاں سستے داموں بھیجی جاتیں اور چترال کا نام بد نام تھا کہ یہاں پر عورتیں اور لڑکیاں فروخت کی جاتی ہیں۔ محمور نے کئ لڑکیوں کو تباہ کیا تھا حالانکہ چترال جیسے مہذب علاقے میں محمور کی کارتوتوں کا چترال پولیس کو انتظامیہ کو اور معاشرے کے فرد فرد کو پتہ تھا تنظیم عضیمت چترال کو پتہ تھا اس کے وجود اس درندے کے شر سے کوئی محفوظ نہ تھا انھوں نے میری ماں کو قصور کے ایک شخص “کھڈی” نام کے ہاتھوں بھیج دیا شادی ہوئی تو میری ماں سے اس شخص کی دو اولادیں ہوئیں ۔ایک بیٹا ایک بیٹی ۔۔تیسری اولاد یعنی میں اپنی ماں کے بدن میں پرورش پارہا تھا کہ ان لوگوں نے میری ماں کو بکر آباد لا کر رات کے اندھیرے میں گاڑی سے اتار کر بھاگ گئے۔میری ماں نے بے یارو مددگار وہاں ایک گھر میں پناہ لی۔صبح اپنے پرانے محسن شاہ عظمت کے گھر آئی کیونکہ میرے نانی نانی جو کرایے کے مکان میں تھے فوت ہوچکے تھے اب ان کا کوئی ٹھکانہ بھی نہ تھا ۔اس وقت میں اپنی ماں کے جسم میں دو مہینے کا تھا ۔اس گھر میں میری پیدائش اور پرورش ہوئی ۔قصور والے شخص کا پتہ نہ چلا۔۔
اب میری عمر سترا سال ہے ۔میرا کوئی باپ نہیں ۔مجھے زندہ رہنا ہے سکول جانا ہے شناختی کارڈ بنانا ہے اپنے پیارے پاکستان میں شہر شہر پھرنا ہے گھومنا ہے لیکن بغیر باپ کے میرا کارڈ نہیں بنتا۔ میری ماں نے ڈی پی او چترال سے رابطہ کیا جو خود بھی ایک خاتون ہیں عورت کا اور اولاد کا درد خوب جانتی ہیں انھوں نے میری ماں کی مالی معاونت کی اور یقین دلایا کہ وہ قصور والے ان لوگوں کو بلائے گی اور مسلہ حل کرے گی ۔پھر مسلسل پولیس سے رابطے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔
محمور درندے سے پولیس نے رابطہ کیا تو وہ بہانے پہ بہانے بنا رہا ہے میں انسانوں کے ہجوم میں تنہا بے یارو مددگار کھڑا ہوں ۔اس ملک میں بظاہر انتظامیہ مقننہ پولیس اور عدالتیں ہیں لیکن اگر کوئی فریاد کرنے پہ آجاے تو تنہا رہ جاتا ہے اور اس کی فریاد صدا بہ صحرا ہوتی ہے ۔یہاں پہ تو محمور اور قصور والا کھڈی جیسے مجرموں کو کوئی لگام نہیں دیتا اور پھر ان کے ظلم کے شکار مظلوموں کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔ میں کہاں جاوں۔ اگر ڈی پی او قصور کے ڈی پی او کو ایک کال کرے تو وہ لوگ ایک ہی دن میں یہاں بھیج دیے جائنیگے مجھے اس بندے کا شناختی کارڈ چاہیے کہ میں اس کی اولاد کی حیثیت سے اپنا کارً ڈبنا سکوں۔ میں اور میری ماں اس تحریر کے زریعے اس ملک خداداد کے ہر فرد سے اپیل کرتے ہیں۔
چترال کی پولیس ڈی سی کمانڈانٹ سے اپیل کرتے ہیں ۔چترال کی عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ میرے درد کو سمجھا جایے مجھے بے سہارا نہ چھوڑا جایے مجھے شناخت چاہیے ایک باپ کی شناخت۔۔اور محمور جیسے درندوں سے اس معاشرے کو پاک کرنے کی دھائی۔
مدثر خان۔ زرگرندہ چترال
سرکار کی زمے داری ہے کہ اس بچے کا مسلہ حل کرے اور اسے باعزت زندگی گزارنے کا حق دیدے