تعلیم اور کتب خانہ
داد بیداد
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
آج نویں یا دسویں جماعت کے طالب علم سے موبائل فون لیکر کتاب اس کے ہاتھ میں دیدو وہ قبول نہیں کرے گا اگر باپ یا استاد ہونے کا واسطہ دے کر آپ نے بچے کو سمجھا نے کی کو شش کی تو الٹا وہ آپ کو سمجھا نے میں کا میاب ہوگا کہ آج کا دور کتاب کا دور نہیں یہ انٹر نیٹ اور سمارٹ فون کا زمانہ ہے تم دقیا نوس کے زما نے کی باتیں نہ کرومیرا سمارٹ فون واپس کرو ہمارے ہم جماعت دوست جب بھی ملتے ہیں 1966ء میں سکول کے کتب خا نے سے لیکر پڑھی ہوئی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں، ہم نے مولانا حالی کی مسدس، نسیم حجا زی کے ناول اور علامہ اقبال کی بانگ درا سکول کے کتب خا نے سے لیکر پڑھی تھی ہم ہفتے میں ایک کتاب لیتے تھے اگلے ہفتے اُس کو واپس کر کے دوسری کتاب لاتے تھے
ایک استاد سکول کے کتب خا نے کا ذمہ دار ہوا کر تا تھا لمبی چھٹیوں پر گھر جا تے وقت ہم اصرار کر تے تھے کہ استاد ہمیں ایک ساتھ 10کتا بیں دے دے اور چھٹیوں کے بعد جر ما نہ کے بغیر واپس لے لے استاد کہتا تھا ایک ہی دن دو قوا نین توڑ ے نہیں جا تے ہفتہ سے زیا دمدت کے لئے کتاب دینے کا قا نون نہیں ہے ہفتہ سے زیا دہ مدت گذرے تو جر ما نہ لگنا قانون ہے یہ نہیں ہو سکتا
گذشتہ روز ہماری جماعت کے چار دوست اکھٹے ہوئے 56سال پرانی یا دوں کو تا زہ کرنے کے لئے سکول گئے لائبریری کو تلا ش کیا تو لائبریری نہیں ملی، ہمیں بتایا گیا کہ لائبریری ختم ہو چکی ہے ہمارے ساتھی کو یا د تھا لائبریری میں 2800کتا بیں تھیں، وقت کی رفتار کے حساب سے اب اس لائبریری میں کم از کم 10ہزار کتا بیں جمع ہو نی لا زمی تھی مگر وقت آگے نکل گیا سکول پیچھے رہ گیا، 1966ء میں معا ئنہ افیسر سکول کا معائنہ کرتا تو پورا دن لائبریری میں گذار تا تھا، وہ کتابوں کی تعداد کے ساتھ ہر کتاب کے اوراق، اس کی جلد بندی وغیرہ کی حا لت کو بھی دیکھتا تھا اگلے سال کے لئے مزید بہتری کی سفارش کر تا تھا، 1966ء کا دور انگریزوں کی حکومت کا قریبی دور تھا، انگریزوں کے قواعد و ضوابط اور طور طریقے لو گوں کو یا د تھے
انگریز افیسر کتا بوں کا حد درجہ شو قین ہو تا تھا وہ لالٹین کی مدھم روشنی میں آدھی رات تک کتا ب پڑھتا تھا یا کتاب لکھتا تھا ہم کمرے میں چار چار ٹیو ب لائٹ لگا ئے ہیں 200واٹ کا بلب الگ جل رہا ہے لیکن کتا ب پڑھنے کو جی نہیں چاہتا، سکولوں میں نہ کتب خا نے ہیں نہ طلبہ کو کتب خا نے کا پیریڈ لائبریری آور دیا جا تا ہے سکول کے ٹا ئم ٹیبل سے کتب خا نے کا پیریڈ نکال دیا گیا ہے ہم نے آگے بڑھنے کے بجا ئے پیچھے مڑ نے اور واپسی کا سفر اختیار کرنے پر اپنی توا نا ئیاں صرف کی ہوئی ہے 1966ء میں ہم ساتویں جما عت میں پڑھتے تھے ہمارے کمرہ جماعت میں چار نقشے تھے، دنیا کا نقشہ الگ تھا ایشیا کا نقشہ الگ تھا، پا کستان کانقشہ بھی تھا ہمارے ضلع کا نقشہ بھی تھا آج آپ 10سکو لوں کا دورہ کریں آپ کو کسی سکول کے کسی بھی کلا س روم میں کوئی نقشہ نہیں ملے گا کسی بھی سکول میں لائبریری نہیں ملے گی اگر پر انے زما نے کی لائبریری ملی تو اُس پر 50سالوں سے تالا لگا ہوا ملیگا
ہمارے بیٹے 1991ء میں جس نجی سکول میں پڑھتے تھے اُس نجی سکول کا پرنسپل مسٹر رچرڈ ایلیسن بر طا نوی شہری تھا لندن شائر کا با شندہ تھا اُس نے سکول میں ریسورس روم بنا یا ہوا تھا اُس کمرے میں کھلونے تھے، ڈرائنگ کا سامان تھا اور سینکڑوں کتابیں تھیں وہ چو تھی جماعت کے طالب علموں کو 3دنوں کے لئے کہا نیوں کی کتا بیں دیتا تھا کہا نیوں کی ان کتابوں نے بچوں کے اندر پڑھنے کا شوق پیدا کیا پھر یہ شوق بڑھتے بڑھتے عادت کا درجہ اختیار کرگیا رچرڈ ایلیسن کے شاگرد آج خود بھی کتا بیں پڑھتے ہیں دوسروں کو بھی کتا بوں کے تحفے بھیجتے ہیں، یہ رچرد ایلیسن کا کما ل ہے کہ اُس نے 3سا لوں میں بچوں کے اندر کتاب سے دوستی کا جذبہ اجا گر کیا، اگر کسی سُہا نی صبح یا چا ندنی رات کو تعلیم کے کسی وزیر سے اچانک ملا قات نصیب ہو تو میں ایک ہی بات کہوں گا جناب عالی! سکولوں میں کتب خا نے کا رواج واپس لاؤ کبھی دفتر سے باہر نکلنے کا موقع ملے تو کسی سکول میں جاکر لا ئبریری ڈھونڈ و، ناکام لوٹنے سے پہلے کسی ایک سکول میں لائبریری کھو لنے کا حکم دو، کیونکہ تعلیم کا کتب خا نے سے براہ راست تعلق ہے