پٹھان ثقافت اور غیر پٹھان اہل وطن کے توقعات
پروفیسر رحمت کریم بیگ
ُپٹھان قوم جنوبی ایشیاء کے ایک وسیع علاقے میں آباد ہے جو افغا نستان سے لیکر بنگال تک پھیلے ہوئے ہیں مگر اتنی وسیع پھیلاو کی وجہ سے کافی لوگ اپنی پٹھان اصلیت سے تقریبا نا وقف ہیں یا اس حد تک پٹھان نہیں ہیں جتنا آج باجوڑ یا مہمند یا تیراہ وغیرہ کا پٹھان ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پرانی شناخت خود بخود زہین کے کونوں سے مٹتی جاتی ہے یا وہ پٹھانی نمایان اوصاف واضح نہیں رہتے جن کے لئے پٹھان کو پاک و ہند میں غیر پٹھان بچے قریہ قریہ یاد کرکے لرزان و ترسان رہتے تھے۔ یہ پٹھا ن قوم کی ایک دھاک تھی جو ہر طرف پھیلی تھی، موجودہ خیبر پختونخواہ میں وہی پرانی ثقافت بے کم و کاست بر قرار ہے، وہی پگڑی ہے ِِ
وہی نسوار ہے، وہی ٹوپک زما قانون ہے ، وہی اینٹ کا جواب پتھر سے، وہی چیخ اور گالیاں، وہی جارحانہ انداز، وہی تحمل، بردباری اور رواداری کا فقدان۔ اس میں کسی قسم کی نرمی لانے کے لئے کوئی بھی پٹھان تیار نہیں جب کہ آس پاس کے لوگ کافی بدل گئے ہیں ان کی لباس میں، رہن سہن میں سوچ میں ، کاروباری فکر میں واضح تبدیلی دیکھی جاتی ہے مگر پٹھان ہے کہ گل محمد نہ جنبد کے مصداق اپنی پرانی ڈگر پر موجود رہنے کو فخر سمجھتا ہے۔
دیہاتی ماحول میں کوئی تبدیلی شاید آئی ہو مگر جب ہم ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھتے ہیں تو اس میں وہی پرانی گرز گرز، وہی بندوق، وہی ہاتھ تپائی، وہی گا لی گلوچ، وہی فائرینگ، وہی قدیم ماحول ، ازکار رفتہ خیا لات، لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنی اس پرانی ثقافت کو اور ان ثقافتی پہلووءں کو آج بھی لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں اور اس پر شاباش اور آفرین وصول کرنا چاہتے ہیں۔ آ ج کی اس ڈیجیٹل دنیا میں آپ کو ان باتوں ، ان روئیوں پر کوئی بھی داد نہیں دیگا بلکہ برا سمجھے گا، اس ثقافتی ورثے کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھے گا۔ کیا پٹھان معاشرے میں کوئی اچھے پہلو نہیں ہیں کیا آپ کو کوئی مثبت پہلو نظر نہیں آتا کیا آپ کی ثقافت اخلاقیات سے سراسر محروم ہے ۔ تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اور یہ کام مشکل بھی نہیں۔
آچھائیاں دکھانے سے لوگ اچھائیوں کی طرف متوجہ ہوں گے، ان کو پٹھان معاشرے کے مثبت پہلو بھی تو دیکھایا کرو ۔ اس کے وہ پہلو جن کی قدر و قیمت ہے، جن کو سراہا گیا ہے، جن کی تعریف کی گئی ہے، جن کو لوگ اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں۔