پھلدار پودے اور گورزین
جس کھیت سے دھقان کو میسر نہیں روزی – اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلادو
پروفیسر رحمت کریم بیگ
چترال ایک پہاڑی ملک ہے، یہاں زراعت کے لئے کفالت کی حد تک زرعی زمین بہت کم لوگوں کے پاس ہے، چترال کے بیشمار پہاڑ اس کی اصل وجہ ہیں جہاں جہاں ہموار زمین اور پانی دستیاب ہے وہاں چترال کے ہر فرد نے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، یہاں لوگ زرعی فصلوں کے ساتھ پھلدار پودے لگانے کے بہت شوقین ہیں ہر گھرانے کے آس پاس آپ کو پھلدار درخت دیکھائی دیں گے اور گرمی میں ہر قسم کے پھل بھی، لوگوں میں یہ شوق قدرتی ہے، بعض زیادہ زمین کے مالک لوگ تو اچھے اچھے باغات لگاتے ہیں جو گورزین کہلاتا ہے جس میں طرح طرح کے پھلدار درخت ہوتے ہیں یہ گورزین گھر کے ساتھ ملحق بنائے جاتے ہیں اور ان کا پھل دراندازوں سے محفوظ ہوجاتا ہے، ان کا پھل وقتی استعمال کے بعد خشک کرکے سردی کے مہینوں کے لئے اکھٹا کیا جاتا ہے، گورزین سے باہر پھلدار اورغیر پھلدار درخت لگانےکا رواج بھی ہے ایسے درختوں کے جھنڈ کو کوچ، کہا جاتا ہے اور وہاں سے سردیوں کے لئے جلانے کی لکڑی اکھٹی کی جاتی ہے
اس طرح یہ لوگ اپنی زمینوں سے پھل اور کھانا پکانے کے لئے لکڑی جمع کر لیتے ہیں یہ زمانہء قدیم سے رواج پاکر آج تک قائم ہے مگر آج کل لوگ اس معاملے میں کمزور ہوگئے ہیں نوجوان اتنی محنت نہیں کرتے جتنا ہمارے باپ دادے کیا کرتے تھے اس لئے ہماری ثقافت کا یہ پہلو زوال پزیر ہے۔
چترال میں زراعت کی اس پہلو کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کو دیکھ کر زراعت کا محکمہ قائم کیا گیا اور اس محکمے نے پھلدار پودوں کی طرف زیادہ توجہ دی اس سلسلے میں جس شخص نے انقلابی قدم اٹھایا اس کا یہاں زکر نہ کرنا زیادتی ہوگی ،یہ مخلص شخصیت چترال موردیر کے مرحوم سیف الملوک تھے جو یونیورسٹی سے زراعت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد چترال میں زراعت کے محکمہ کے سربراہ بنائے گئے تھے اور ان کی انتھک کوششوں سے چترال اور بونی میں نرسریاں قائم کی گئیں جن سے لوگوں کو پودے تقسیم کئے جاتے تھے، چونکہ ان دنوں چترال میں جیپ ایبل روڈ نہیں تھے اس لئے یہ پودے قریبی دیہات کے لوگ ہی اٹھا کر لے جاتے تھے اور دور دراز کے لوگ اس کار خیر سے با خبر نہ تھے مگر اب سڑکوں کی وجہ سے دور مقامات کے لوگ بھی ان پودوں سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں ۔ ان پودوں میں سیب، خوبانی، الوچے، بادام، چیری،اڑو وغیرہ نمایاں ہیں ، چترال میں چیری کو محکمہ زراعت ہی نے ترقی دیکر شہرت بخشی ہے۔
ٓ محکمہ زراعت کی اس اقدام سے بعض لوگوں نے سبق حاصل کیا اور اپنی اپنی زمینوں پر نرسریاں بنانی شروع کی اور آج بازار میں بکنے والی ان پودوں میں بیشتر زاتی نرسریوں کے مالکان کے پودے بکثرت مل جاتے ہیں، میں نے شندور کے پار پھنڈار سے نیچے کےعلاقوں میں بادام کے پودے اور بادام کی بڑی پیداوار کا مشاہدہ کیا ہے اور ان لوگوں کا بیاں ہے کہ بادام بہت نفع بخش پودا ہے اس لئے میری گزارش چترال والوں سے یہی ہے کہ یہاں اور وہاں کے موسمی حالات تقریبا یکسان ہے اس لئے چترال میں بھی بادام کی نرسریاں زیادہ مقدار میں لگاے جائیں تا کہ لوگوں کی نقد آ مدنی کا زریعہ بن سکیں اس کی اچھی قیمت مل جاتی ہے اور یہ نہایت پسندیدہ خشک میوہ ہے۔
پروفیسر رحمت کریم بیگ صاحب نے مفید معلومات دیے ہیں۔ چترال میں زراعت کی ترقی کا آغاز جناب سیف الملوک کے ہاتوں ہوئ۔ ریگولر ارچرڈ پہلی دفعہ انہوں نے اوسیاک میں لگایا۔ جسکی دیکھا دیکھی کئی مقامی زمینداروں نے دلچسپی لیا اور انکی مدد سے باغات لگائے۔1983 کے بعد اےکےارایس پی کی مالی اور ٹکنیکی تعاون سے مزید بڑھاوا ملا ۔بمباغ میں اےکےارایس پی نے ایک ماڈل باغ لگایا جس کے لئے پودے برطانیہ سے منگوائے گئے۔۔اس باغ سے بہت سے لوگوں نے فائدے اٹھاے اور یہاں سے مختلف اقسام کے پودوں کے نمونے لے جاکر اپنے باغوں میں لگاے۔