سودی قرضوں سے نجات
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
فروری کا میہنہ نئے بجٹ پر کا م شروع کر نے کا مہینہ ہے اس ما ہ نئے ما لی سال کے بجٹ کا خا کہ تیار ہو تا ہے اگلے تین مہینوں میں بجٹ کی نو ک پلک سنوار کر پوری بجٹ دستا ویز تیار کی جا تی ہے عموماً جو ن کے مہینے میں بجٹ پیش کیا جا تا ہے ہر سال بجٹ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ پرانے قر ضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد بچ جا نے والے آمدن میں سال کس طرح گذارا جا ئے اس کا آسان حل یہ ہے کہ مزید قرضہ لیا جا ئے عموماً ایسا ہی ہو تا ہے اسلام اباد میں اس وقت یہ بات زیر بحث ہے کہ قر ضوں کے جا ل سے نجا ت کس طرح ملے گی کو نسا راستہ اختیار کیا جا ئے کہ مو جو دہ قرضہ ادا ہو جا ئے آئیندہ قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے اس کا آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ ملک کے 200کھرب پتی خا ندان آگے آکر ملک کے ذمے قرضہ ادا کریں صرف سیا لکوٹ شہر کے صنعتکار وں نے دو سے زیا دہ مو اقع پر اپنے سر ما یے سے حکومت کی مدد کا فریضہ انجام دیا ہے
اگر ایک شہر کے صنعتکار حکومت کی مدد کر سکتے ہیں تو ملک کے 12صنعتی اور تجا رتی شہروں کے صنعتکار اور تا جر آگے آکر اپنا کر دار ادا کریں تو ملک کے ذمے واجب لادا قرضوں سے قوم کو نجا ت دلا ئی جا سکتی ہے اور یہ کا م مشکل نہیں اسلا م اباد کے جو حلقے ان خطوط پر سوچ رہے ہیں وہ ملک کے معتبر حلقے ہیں ان حلقوں میں اس بات پر تشویش ظا ہر کی جا رہی ہے کہ پا کستان 50کھرب روپے کا قرض دار ہوا ہے پا کستان کی کل آمدن کا 85فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے بجٹ بنا نے والے بقا یا 15فیصد پر مزید قرض لیکر ملکی دفاع، تر قیا تی پرو گرام اور دیگر اخرا جا ت کے لئے وسائل فرا ہم کرتے ہیں اگر مزید قرضہ نہ لیا جا ئے تو ملک چلا نا ممکن نہیں ہو تا ، ہر سال یہ مسئلہ پیش ہو تا ہے اور ہر سال اس کا یہی حل نکا لا جا تا ہے انگریزی میں اس کو ویشسیس سائیکل کہا جا تا ہے جس کا اردو تر جمہ ’’شیطا نی چکر‘‘ کیا گیا ہے اس شیطا نی چکر سے با ہر آنے کے دو سے زیا دہ راستے ہو سکتے ہیں تا ہم سیا سی مصلحتوں اور جمہوری تقا ضوں کو سامنے رکھ کر دو ممکنہ راستوں پر غور کرنا منا سب ہو گا پہلا راستہ یہ ہے کہ امپورٹ میں کمی کی جا ئے با ہر کے ملکوں سے عیش و عشرت کے لئے منگو ا ئی جا نے والی قیمتی سا ما ن اور گا ڑیوں کی در آمد پر مکمل پا بندی لگا ئی جا ئے اس اقدام سے زر مبا دلہ کی بچت ہو گی اور ملکی معیشت کو استحکا م ملے گا دوسرا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ اندرون ملک محا صل جمع کر نے کے نظام میں اصلا حا ت کے ذریعے محا صل کو دگنا کیا جا ئے تا کہ ملکی دفاع، تر قی، خوشحا لی اور دیگر امور ملکی وسائل سے حل ہو جائیں
یہ دونوں اقدامات بیک وقت اٹھا ئے جا سکتے ہیں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خواتین کے میک اپ سے لیکر دولت مند گھر انوں میں کتے اور بلی کی خوراک تک 228غیر ضروری اشیاء بیرونی ملکوں سے در آمد کی جا تی ہیں بنگلہ دیش کی حکومت نے غیر ضروری درآمد ات پر پا بندی لگا ئی ہے ان کی ملکی آمدن کا صرف 20فیصد قر ضوں کی ادائیگی پر لگتا ہے با قی 80فیصد ملکی تر قی پر لگا یا جا تا ہے اخباری رپورٹوں کے مطا بق سال 2022-23کے بجٹ میں کئی انقلا بی اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں ان انقلا بی اقدامات کو کا میاب بنا نے کے لئے 50کھرب روپے کے قر ضوں کا مو جو دہ بو جھ گردن سے اتار نا ہو گا ، صنعت و تجا رت سے وابستہ لو گوں کا خیال ہے کہ صنعتکار وں کا تعاون حا صل کر کے 200بڑے سر ما یہ داروں کو پا کستان کا قرضہ اتار نے پر ما ئل کرنے کے لئے سیا سی تنا ءو کی کیفیت کو ختم کر کے کاروباری طبقے کا اعتما د بحا ل کرنا ہو گا اعتما د کی بحا لی کے بعد ملک کے صنعت کار اور تا جر دست تعاون بڑ ھا نے پر اما دہ ہو جا ئینگے تناءو اور دباءو کے ما حول میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔