Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

یوم چترال

شیر ولی خان اسیر
یکم فروری 2022 کو بہار احمد صاحب کا فون آیا۔ بہار احمد کی شخصیت اور کردار محتاج تعارف نہیں۔ چترال برینس کے بہار احمد کے ساتھ تعلق اس وقت سے ہے جس وقت بہار احمد محکمہ تعلیم میں استاد تھے۔
ایک متحرک، پرتجسس اور تعمیری ذہن کے مالک بہار احمد کو شاید تدریسی شعبہ ان کی سرگرمیوں کے لیے تنگ دامن لگا کہ اس نے اسے خیرآباد کہہ کر اپنا فلاحی ادارہ کھولا۔ یہ ادارہ چترال ایسوسی ایشن فار ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ کے نام سے رجسٹر ہوا اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہترین خدمات کا آغاز کیا۔ اب تک ہزاروں طالب العلموں کو وظائف مہیا کرکے اعلے تعلیم تک رسائی دی ہے اور لاتعداد مریضوں کی مالی مدد کی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہترین خدمات انجام دینے والے شخصیات اور ادروں
کو ایوارڈز دینے کی طرح بھی ڈالی ہے جو ڈاکٹر اے کے خان ایوارڈ کے نام سے محسن پاکستان، پاکستان کے ایٹمی انرجی کے خالق مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات پاکستانی قوم کو یاد دلاتے رہیں گے۔

بہار احمد صاحب نے فون پر بتایا کہ چترال ایسوسی ایشن فار ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ نے پشاور میں چترال ڈے منانے کا اہتمام کیا ہے جس میں بچوں اور نوجوانوں میں حسن قراءت، نعت خوانی، تقریری مقابلوں کے علاوہ مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوں گے۔ چترال کے قابل فخر فرزندان و دختران اور چترال کے بالواسطہ یا بلاواسطہ خدمت کرنے والے خواتین و حضرات کو ایوارڈز بھی دیے جائیں گے۔ انہوں نے ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر کو بھی تعریفی ایوارڈ وصول کرنے کے لیے دعوت دی جس نے آپٹیکس پر کتاب لکھ کر بین الاقوامی پزیرائی حاصل کی تھی۔ اس کی تصنیف نے آن لائین ایمیزون پبلشنگ کمپنی میں گزشتہ دو سالوں سے بیسٹ سیلنگ بک رہی ہے اور انٹر نیشنل بک اتھارٹی نے اسکو دی بیسٹ بک اف ال ٹایمز قرار دیا۔ خوش قسمتی سے چترال کی اس بیٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ پہلے پاکستانی ڈاکٹر بن گئیں جن کی کتاب کو انٹرنیشنل بک اتھارٹی نےدنیا کی بہترین کتابوں کی فہرست میں شامل کیا۔
ڈاکٹر زبیدہ اسیر گلگت میں آغاخان ہیلتھ سروسز پاکستان کے شعبہء چشم کی سربراہ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور اپنی انتہائی مصروف ورک شیڈول کے باعث بذات خود یہ ایوارڈ وصولنے نہ آسکی جس کا اسے افسوس رہا۔ اس لیے مجھے اور ان کی والدہ کو یہ اعزاز ملا کہ ہم ان کی طرف سے یہ ایوارڈ وصول کریں۔
جب ہم اپنے پوتی پوتے کو بھی ساتھ کے کر 6 فروری کے سہ پہر تین بجے قیوم سپورٹس کمپلیکس پشاور پہنچے تو لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا۔ ہمیں تقریب کا وینیو معلو نہ تھا۔ خوشقستی سے برخوردارم افگن رضا ملا جس نے ھال تک ہماری رہنمائی کی۔
جب ھال داخل ہوئے تو ھال کو تماشائیوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا پایا۔ بہار احمد صاحب اور ساتھوں نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ نشستیں دی گئیں۔ یہاں بہت سارے دوستوں سے ملنے کا نادر موقع بھی میرے نصیب میں آیا۔ انتہائی شائستہ مزاج نوجوان پولیس آفیسر مسٹر عمران ڈی پی او خیبر ایجنسی کے ساتھ تبادلہ خیالات کا موقع ملا۔ پھر ہمارے کمشنر ملاکنڈ جناب ظہیر الاسلام بھی تشریف فرما ہوئے یہ بڑے آفیسر بھی اپنے حسن سلوک اور نرم و نازک گفتگو کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات میرے غریب خانے “کاشانہ اسیر “واقع لغل آباد میں ہوئی تھی جب وہ بروغل تہوار میں شرکت کے لیے جا رہے تھے اور ہمارے ساتھ ایک پیالی چائے کے لیے رکے تھے۔ ان کے ہمراہ اے ڈی سی اپر چترال جناب عرفان اور ڈی پی او ذولفقار تنولی صاحب بھی تھے۔ جناب پروفیسر اسرار صاحب کے ساتھ بڑی مدت بعد ملاقات ہوئی۔ ان کی چترال اور اہل چترال کے ساتھ بے لوث محبت کا ثبوت ان کی اس ضعیف العمر ی اور ضعف قویٰ کی حالت میں تقریب میں شرکت ہے۔ اللہ ان کی عمر میں برکت عطا کرے۔ ڈاکٹر ظاہر الاسلام ڈئریکٹر پاکستان سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ پشاور یونیورسٹی کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی اور جو باعث شرف ہے۔ ہم نے جنرل حمیدگل کے فرزند ارجمند عبداللہ گل سے ملے اور ان کی پیار پیاری باتیں سنیں۔
تقریب کی پہلی نشست کی صدارت کا اعزاز اس ناچیز کو بخشا گیا اور ظہیراسلام صاحب کو مہمان خصوصی کی کرسی پر بٹھایا گیا۔ مجھے ان کو سننے کا بڑا اشتیاق تھا کیونکہ ظہیر صاحب ایک قابل بیروکریٹ ہی نہیں بلکہ ایک بڑی علمی شخصیت بھی ہیں۔ ان کی میٹھی میٹھی باتوں سے محظوظ ہوئے البتہ میرے پیارے چترالی بچوں کا شوروغل حس سماعت کو مسلسل متاثر کیے رکھا جس کا مجھے بے حد افسوس رہا۔ ہم اہل چترال اپنی تہذیب و شرافت والی عادات کی بدولت باہر کی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
اگر ہم نے یہ شناخت گنوا دی تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ہمارے نوجوان بچے تقریب کی پہلی نشست کے اختتام تک قرار سے نہ بیٹھ سکے۔ جو شرکاء قاریوں اور نعت خوانوں کو داد دینے میں پیش پیش تھے وہ تقریب ختم ہونے سے پہلے ھال سے نکل گئے جسے غیر مہذبانہ رویہ کہا جاسکتا ہے۔ مقابلے میں شریک بچوں نے وقت کی پابندی نہیں کی اور نہ انتظامیہ ان کو پابند کر سکی۔ یہی وجہ ہے کہ مہمان خصوصی اور صدر محفل کے لیے وقت نہیں بچا۔نوجوان شرکاء کے نامعقول رویے نے میرے صدراتی الفاظ کے جسم سے بھی ذوق و شوق کی روح سلب کرلی۔ مجھے بہت کچھ کہنا تھا نہ کہہ سکا۔
میں اپنے چترالی بچوں اور نوجوانوں سے گزارش کروں گا کہ اپنی تہذیب و تمدن کو زندہ رکھیں۔ والدین اور اساتذہ کرام اپنے بچوں کی تربیت میں اس کی طرف خاص توجہ مبذول کریں ورنہ ہماری تہذیب و ثقافت بہت جلد دم توڑ دے گی، خدا نہ کرے
چونکہ میں دوسری نشست میں بھی ھال میں موجود رہا کیونکہ جناب عنایت اللہ اسیر کی کتاب ژیرغست کی تقریب رونمائی تھی۔ اسیر صاحب چترال کے معروف شاعر ، ادیب اور سماجی کارکن ہیں اور رشتے میں میرا بھانجا لگتے ہیں۔ ان کی کتاب پر مہربان الہی خنفی صاحب اور قاضی عنبر صاحب سیر حاصل تبصرہ سامعین کے گوش گزار کیا جب کہ مشہور گلوکار انصاری صاحب نے ان کی ایک غزل ترنم کے ساتھ پیش کر کے داد سمیٹھی۔
اسیر صاحب نے اپنی کتاب مجھے بھی تحفتاً پیش کیا۔ شاعر، گلوکار، موسیقار اور مزاحیہ فنکار جناب اقبال الدین سحر نے بھی تقریب کو رونق بخشا۔ تیسری نشست نوجوان شعراء کی محفل مشاعرہ تھی جس میں نوجوان شعراء نے کلام پیش کرکے دادو تحسین پائی۔ موذی بیماری کا شکار نوجوان شاعر جلیل ساحل نے اپنی دکھ بھری غزل ترنم کے ساتھ پیش کرکے ہمیں رلایا اور سید ابرہیم شاہ طائر نے مزاحیہ نظم پڑھ کر ہمیں ہنسایا۔ یہ دنیا ہے جہاں آنسو اور ہنسی ساتھ ساتھ رواں دواں رہتے آئے ہیں۔
اللہ پاک ساحل کو صحت کاملہ عطا فرمائے

آخر میں میں سی اے ای ایچ کے چیرمین بہار احمد صاحب، عطا الرحمن رومی صاحب، ساگر صاحب اور ان کی ٹیم کے جملہ اراکین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں ہمارے صوبائی مرکز میں یوم چترال کا کامیاب اور شاندار پروگرام منعقد کیا۔ بچوں کو صحت مند مقابلوں کا اہتمام کیا اور ہمیں مل بیٹھنے اور سننے کا بہترین موقع فراہم کیا۔
تقریب میں شریک بہت سارے دوستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ مضمون کی تنگ دامانی نے ان کا تذکرہ ہونے نہیں دیا۔

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!