شہزادہ خالد پرویز اور پاکستان پیپلز پارٹی
محکم الدین ایونی
انسانی زندگی میں بعض اوقات رونماہونے والے واقعات انہونی لگتے ہیں خصوصا سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کے باوجود بھی کچھ ایسے حالات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسان محو حیرت بن جاتا ہے۔ شہزادہ خالد پرویز کی حالیہ دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی چترال کے لوگوں کیلئے کچھ ایسا ہی باعث حیرت و تعجب ہے اور اس حوالے سے مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
چترال کی سیاست پر تین عشروں سے زیادہ بحیثیت سابق وفاقی وزیر مملکت برائے سیاحت، ایم این اے، چیرمین ڈسٹرکٹ کونسل اور ضلع ناظم کے منصب پر رہنے والے معروف سیاسی شخصیت شہزادہ محی الدین کے تعلقات و سیاسی اثرات سے آج بھی اس کے فرزندان ارجمند سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین اور سابق ناظم شہزادہ خالد پرویز فوائد حاصل کر رہےہیں۔ گو کہ دونوں شہزادگان میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ تاہم بڑے شہزادہ کی وسیع سیاسی زندگی کے ثمرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت دلچسپ امر یہ ہے کہ شہزادہ خالد پرویز جو چترال میں آل پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے آمیزش سے جنم لینے والی دو رنگی مسلم لیگ کے گھوڑے پر سوار معلق سیاسی زندگی گزار رہےتھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکا ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر نجم الدین خان کی خصوصی دلچسپی نظر آتی ہے۔
نجم الدین خان اور شہزادہ خالد پرویز نے گذشتہ روز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور شہزادہ خالد پرویز نے مفلر گلے میں ڈال کر بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ بیعت کر لی۔ اس مختصر شمولیتی تقریب میں بات نوٹ کرنے کی یہ تھی کہ دو عشروں تک چترال میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر اور موجودہ صوبائی رہنما سلیم خان موجود تھے اور نہ موجودہ صدر پی پی پی چترال انجنیئر فضل ربی تقریب میں نظر آئے جس سے بعض کارکنان کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اس اہم شمولیتی تقریب میں کم از کم موجودہ ضلعی صدر اور سابق صدر کو شرکت کی دعوت دی جانی چاہیے تھی لیکن نامعلوم ایسا مناسب کیوں نہیں سمجھا گیا۔
شہزادہ خالد پرویز منجھے ہوئے سیاستدان کے فرزند اور افتخارالدین ایم این اے کے بھائی ہیں اور خود بھی سیاست پر کافی تجربہ رکھتے ہیں انہوں نے نجم الدین خان کی یقین دھانی اور سیاسی حالات کا رخ بھانپتے ہوئے ہی پی پی پی میں شمولیت اختیار کی ہو گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عنقریب منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل ناظم دروش کیلئےبطور امیدوار بھی نامزد کئے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اپنی تحصیل میں مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔
دروش ایک جنگلاتی علاقہ ہے اس میں پارٹی مفادات سے زیادہ جنگلاتی مفادات کےحوالے سے فیصلے کئے جائیں گے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے اندربعض ناقدین جن کو شہزادہ فیملی سے خدا واسطے کا بیر ہے پیپلز پارٹی میں ان کی شمولیت سے کچھ زیادہ خوش نہیں آتے اور ان کا کہنا ہے کہ در اصل پیپلز پارٹی سے ان کی وابستگی کی بنیادی وجہ شہزادگان سے مخاصمت ہے۔ اب ان کیلئے پیپلز پارٹی میں بھی کوئی جگہ نہیں رہی۔ لیکن اس قسم کی سوچ رکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی چترال کے سابق صدر سلیم خان کی صوبائی قیادت میں شامل ہونے کے بعد جس قسم کے رہنما کی ضرورت تھی اس خلا کو “رائٹ پر سن فار دے رائٹ جاب” کے مصداق پیپلز پارٹی چترال نے پر کر لیا ہے۔
انجینئیر فضل ربی جان ایک سنجیدہ، با کردار، مثبت سوچ کے حامل، انتہائی متحرک، ورکرز کو احترام دینے والے رہنما ہیں۔ چترال بھر میں وسیع تعلق رکھتےہیں۔ سیلف میڈ شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنی صدارت کے مختصرعرصے میں عوام میں جگہ بنالی ہے۔ وہ خاندانی طور پر پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گو کہ کچھ وقت انہوں نے دوسری پارٹی کے ماحول میں گزارا لیکن صبح کا بھولا شام کو واپس آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے ہیں کے مصداق وہ پیپلز پارٹی ہی سے ہیں۔
انجینئر فضل ربی کیلئے حالیہ بلدیاتی انتخابات ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ان کی صدارت کا پہلا امتحان ہے کہ وہ بطور صدر پاکستان پیپلز پارٹی چترال ایک کامیاب کوچ کی طرح پہلے اپنے انتخابی امیدواروں کے ناموں کا فیصلہ کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتےہیں۔ اس کے بعد مقابلے کی ٹیموں کیلئے کیسی حکمت عملی ترتیب دیتےہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایسا کرنے کی بھرپور قابلیت رکھتے ہیں۔
بلدیاتی الیکشن سے اگرچہ کوئی انقلابی تبدیلی کی امید نہیں ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس کے براہ راست اثرات جنرل الیکشن پر پڑیں گے۔ اب چونکہ جنرل الیکشن کیلئے وقت بہت کم رہ گیا ہے تو گویا بلدیاتی الیکشن جنرل الیکشن کا ریہرسل ہیں۔ چترال میں ملک کے نامور پارٹیوں کے مقابلےہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کونسی پارٹی عوام کو رام کرنےمیں کامیاب ہوتی ہے۔