نفس کے خلاف جہاد
شہزادی کوثر
بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے کہ انسان کتنی عجیب مخلوق ہے،اس کے وجود کا خمیر جن عناصر سے مل کر بنا ہے وہ اثرات اس کی زندگی پہ اپنی گرفت کبھی ڈھیلی نہیں چھوڑتے،اسے نفس ،عقل،روح، دل اور ضمیر دیا گیا ہے۔ نفس اگر حدود میں رہے تو انسان فرشتوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے اگر اپنی حدود سے متجاوز ہو تو شیطان بھی اس سے پناہ مانگے۔ زندگی بھر نفس کا سر کچلنے کی کوشش کرتا ہے کبھی تو نفس غالب آکر اسے اپنے پیچھے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے اور کبھی وہ نفس کی گردن میں اطاعت کا طوق ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر ایسا کرنا آسان نہیں ،یہ بہت ہی مشکل مرحلہ ہے جب وجود کی دنیا میں دو شدید جذبات باہم برسرپیکار ہوتے ہیں ۔۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
اسلام کی نظر میں بھی سب سے بڑا جہاد انسان کا اپنے نفس سے لڑنا ہے ،اس لئے کہ فرشتوں کی طینت اور شیطان کی خصلت دونوں کو کسی معتدل مقام پر یکجا کرنے میں کامیاب ہو جانا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ ہرانسان کے اندر ایسی جنگ کسی نہ کسی شکل میں ہوتی رہتی ہے ، باہر بڑا پُرسکون اور با وقار دکھنے والا انسان اپنے وجود میں کتنی بڑی شورش چھپائے ہوتا ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا کیونکہ یہ دونوں طاقتیں انسانی وجود کو اپنا مشق ستم بناتی ہیں ۔۔۔
عالم سے اختیار کی ہر چند صلح کُل
پر اپنے ساتھ مجھ کو شب و روز جنگ ہے
اس جنگ کا نتیجہ کبھی بڑا واضح ہوتا ہے اور فرد کی کامیابی یا ناکامی کے پلڑے کی طرف جھکاو نظر آتا ہے لیکن بعض دفعہ تو نہ ختم ہونے والی لڑائی ذات کی دیواروں کو شکستہ کرنا شروع کرتی ہے اور زندان حیات کی دیوار پھاندنے تک اس سے گلو خلاصی نہیں ملتی۔ کبھی فرد کی انا کا سانپ پھن پھلائے کسی دوسرے کی ہستی کو قبولنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور غرور و تکبر اپنی نخوت کے آگے دوسرے کی صلاحیتوں کو راکھ کے ڈھیر سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوتا ،کبی دل اپنی سلطنت کا اعلان کرتے ہوئے سب سے بڑی طاقت ہونے کا دعویۤ کرتا ہے اور کبھی عقل اس سلطنت کی بنیادوں کو نمک کی اینٹوں سے بنی عمارت سے زیادہ وقعت نہیں دیتی ۔
نگاہ ودل تیرے بارے میں متفق ہی نہ تھے
میں خود سے کتنا لڑا ہوں تیری محبت میں
اس طرح کی لڑائی میں میدان کارزار انسان کی جان عزیز ہے جس میں خیر وشر کی مختلف حالتیں نظر آتی ہیں جن میں ایک جبلت ہے اس کی تربیت نہ ہو تو ساری عمر خباثت میں گزار دیتا ہے جبلت کو تہذیب کی بھٹی میں تپایا جائے تو ضمیر بن جاتی ہے ورنہ خبیثہی رہ کر برائیوں کی طرف دوڑتا اور دوڑاتا ہے۔ ضمیر کے ہاتھ میں وہ کیمیا گری ہے کہ خطاوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا بناتا ہے یہ موقع اسے نہ دیا جائے تو یہ جبلت کے کھردرے پیروں تلے کراہتا رہے گا ۔جبلت کو آسانی سے سمجھنا چاہیں تو اسے حیوانیت اور وحشیانہ طریقہ زندگی کہ سکتے ہیں جسمیں حقوق وفرائض کا وجود کوئی نہیں مانتا ،قانون تہذیب، مذہب اور انسانیت کے اعلی اقدار کی حیثیت اس کی نظر میں رینگتے کیڑے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جس کے ہاتھ میں طاقت اور اقتدار کا چابک ہے وہی آقا ۔۔۔ باقی لوگ چوپایوں کا ریوڑ جسے باآسانی جدھر چاہیں ادھر ہانکا جا سکتا ہے۔ ابن آدم کی لغزشوں کی وجہ بھی جبلت ہی بنتی ہے کہ جو چیز بھی پسند آجائے اس کے حصول کے لئے حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی گویا جبلت کے ہاتھوں انسان بے دست وپا ہو کر رہ جاتا ہے ،اس سے بچنے کے لئے اپنے نفس کے خلاف جہاد کی حالت میں رہا جائے تا کہ ابن آدم انسانیت کے شرف سے محروم نہ ہو۔