آصف علی سیرنگ
بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی کے ساتھ ہی چترال کے دوسرے علاقوں کی تحصیل لٹکوہ کے سیاسی نمائندے تحصیل میئرشپ کے ٹکٹ کے حصول کے لئے کوششوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ جس میں پی ٹی آئی سے محمد شریف خان اور شہزادہ امان رحمن، پی پی پی سے میردولہ جان اور شیرین خان اپنی اپنی درخواستیں پارٹی ہائی کمان کے پاس جمع کرچکے ہیں جس پر کچھ دنوں میں فیصلہ متوقع ہے۔ ٹکٹوں کے حصول کیلئے جہاں لٹکوہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے درخواستیں جمع کی ہیں وہیں دوسری طرف سیاسی جوڑ توڑ کا عمل بھی زور و شور سے جاری ہے۔ مگر ہم یہاں صرف تحصیل لٹکوہ سے متوقع تحصیل میئر شپ کے امیدواروں کے بارے میں تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
جہاں تک کارکنوں کی حیثیت، ان کی خدمات اور پارٹی سے سالوں سے وابستگی کا سوال ہے وہ کبھی بھی سیاسی پارٹیوں کے لئے اہم نہیں رہا ہے۔ بجائے مخلص کارکنوں کے ہمیشہ پیراشوٹ سے پارٹی میں شامل ہونے والوں کو اہمیت دی گئی ہے یا پھر تعلق کی بنیاد پر ٹکٹوں کا حصول ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے۔محمد شریف خان پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکنوں میں شمار ہوتے ہیں کافی عرصے سے پی ٹی آئی کے ساتھ منسلک ہیں اس کے علاوہ ان کے تعلقات اور رشتہ داریاں بھی اوپر والوں کے ساتھ ہیں۔ قوی امکان یہی ہے کہ تحصیل میئرشپ کے لئے ان کا انتخاب کیا جائے مگر شہزادہ امان الرحمن بھی ایک مظبوط امیدوار ہیں۔محمد شریف خان کریم آباد ویلی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علاقے کے ووٹوں کا حقدار بن سکتے ہیں شہزادہ امان الرحمن کو صرف اس بنیاد پر ٹکٹ دیا جاسکتا ہے کہ وہ چترال ٹاؤں سے بھی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بریں دیگر ان کا ووٹ بینک لٹکوہ وادی میں کچھ متنازعہ ایشوز کی وجہ سے کافی کم ہوا ہے۔
شیرین خان اور میردولہ جان دونوں منجھے ہوئے سیاسی لوگ ہیں۔ اس سے پہلے کئی دفعہ انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ مقامی حکومتوں کا حصہ بھی رہے ہیں۔ مگر میئرشپ کے لئے انتخاب کے طریقہ کار بدلنے کے بعد ان دونوں امیدواروں کا لٹکوہ وادی کے علاوہ چترال کے دوسرے علاقوں سے ووٹ حاصل کرنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہوگا۔ پی پی پی کا ایک مخصوص ووٹ بینک ان کو چترال کے باقی علاقوں میں بھی ملنے کے قوی امکانات ہیں جس کے لئے وقت کی کمی الیکشن کیمپئن کے آڑے آسکتی ہے۔ شیرین خان زبان دانی اور تحصیل کابینہ کا پہلے بھی حصہ رہے ہیں اگر لٹکوہ میں پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہوا تو میردولہ جان کے مقابلے میں ان کو فوقیت دی جائے گی۔ مگر لگتا نہیں کہ پی پی پی چترال ٹاؤن کے بجائے لٹکوہ کو تحصیل میئرشپ کے نامزد کرے گی۔
شطرنج کے اس سیاسی کھیل کا سب سے خطرناک ترین مگر ابھی تک خاموش مہرہ نصرت الہی ہیں جن کا تعلق تو جی یو آئی سے ہے مگر گزشتہ ڈیڑہ سال کے دوران وادی لٹکوہ کے مسائل کو اجاگر کرنے میں جو کردار اس شخص نے ادا کیا ہے وہ قابل تحسین ہی نہیں بلکہ گرم چشمہ کے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں میں ان کی مقبولیت کا گراف بہت بلند کرچکا ہے۔ اگر جے یو آئی یہ مہرہ مثبت اور بروقت کھیلنے میں کامیاب ہوا اور نصرت الہی کا جمعیت علمائے اسلام سے ٹکٹ کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے تو وہ لٹکوہ کی سطح پر بہت بڑے اپ سیٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ فی الحال سیاسی قائدین میں لٹکوہ میں سب سے زیادہ قدر اور بھروسہ نصرت الہی پر کیا جارہا ہے۔ یقینا اسی حساب سے ووٹ بھی پڑیں گے جو کہ جے یو آئی کے یقینی جیت کا سبب بن سکتا ہے۔تحصیل چترال کے مختلف علاقوں میں ان کی پارٹی کے کنفرم چھ ہزار ووٹ لٹکوہ سے ملنے والے ووٹ سے الگ ہوں گے۔ کیونکہ جمعیت علمائے اسلام کے نظریاتی کارکن صرف پارٹی ٹکٹ پر ووٹ دیتے ہیں۔ نصرت الہی کا انتخاب جے یو آئی کے لئے لٹکوہ کی وادی میں ایک نرم گوشہ پیدا کرنے میں بھی بہترین کردار ادا کرے گا۔