Govt high school Brep

شمع جلائے رکھنا: ھائی سکول بریپ

 تحریر: شوکت علی
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ علم ہی کسی ملک و قوم اور معاشرے کی ترقی کا ضامن ہے۔ وادی یارخون میں علم کی ضیاء پاشی اور اس کی تعمیر و ترقی میں گورنمنٹ سکول بریپ کا کیا کردار رہی ہے اس سے متعلق چند معلومات اپنی نوجوان نسل کی خدمت میں واہ گزار کرنا چاہتا ہوں۔

یہ تقریبا ۱۹۵۵ء کی بات ہے کہ گاوں کے چند عمائدین جو خود ان پڑھ ہونے کے باوجود علم کی اہمیت سے کماحقہ آگاہ تھے۔ ان کے اسمائے گرامی اہستہ اہستہ آپ کے ساتھ شئیر ہوتے جاینگے۔ اُنھوں نے ایک دن آپس میں میٹنگ منعقد کی اور اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کے لیے تعلیم کی ضرورت اور اہمیت پر سیر حاصل بحث کیں۔ عمائدین کی اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہم اپنی مدد اپ کے تحت کہیں جا کے اپنے بچوں کے لیے اُستاد لاینگے اور شاید ریاست چترال بھی ہماری مدد کرے اس وقت چترال مہتر کے زیر نگرانی ایک ریاست ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ اُن مقتدر لوگوں میں سے چند سرغوز اور پرکوسپ میں جاکر بہادر جان اور میرزا ہادی کو بطور اساتذہ گاوں لائے۔بہادر جان اُستاد کا تعلق سرغوز گاوں سے اور میرزا ہادی اُستاد پرکوسپ گاوں سے تھا اور دونوں پرائمیری پاس تھے۔ ان دونوں اساتذہ کی قیادت میں بریپ میں دہ کے مقام پر چند بچوں کو اکھٹا کرکے اُوپن سپیس میں اس علاقے میں پہلی مرتبہ ایک تعلیمی ادارے کا آغاز کیاگیا۔
اسی اثناء میں چترال اسٹیٹ کے وزیر تعلیم جناب شاہ صاحب علاقے کے دورے پر آئے اور اس سکول سے متعلق گاوں کے معتبرات سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔

وزیر تعلیم سکول کی تعمیر وترقی کے سلسلے میں علاقے کے حسب ذیل معتبرات سے تفصیلی میٹنگ کی۔مہربان جملشٹ، غازی رکین گل جملشٹ، گل جوان موکھی تورجال، تیغون جعمدار قسماندور، اُستاد خان دہ، حاجی حکیم راتھنی، محمد صاحب خان لال زانگوگوچ وغیرہم۔ جناب شاہ صاحب نے ان کمیونٹی لیڈرز سے یہ وعدہ کیا کہ آپ اس سکول کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مکان بنائے اور میں واپس آکر اس سکول کو لوئر مڈل کی سطح پر ترقی دونگا۔ گأوں والوں نے ملکر دو کمروں پر مشتمل ایک بلڈنگ شانغور کے مقام پر بنائی اور وزیر تعلیم کو اس عمل سے آگاہ کیا گیا۔

جناب شاہ اپنے دوسرے دورے کے موقعے پر یہاں آکر بلڈنگ کا معائینہ کیا اور اس عمارت کو لوئر مڈل سکول کے لیے مناسب نہیں سمجھا اور کمیونٹی لیڈرز کو ہدایت کی کہ تم میں سے کوئی جاکے کوغزی مڈل سکول کے کمروں کا سائز لاکر یہاں کسی محفوظ جگہے پر آٹھ کمروں پر مشتمل عمارت فورا تعمیر کرکے مجھے حوالہ کیا جائے۔ چنانچہ اُستاد خان مرحوم جو ایک ہنرمند ترکان بھی تھا وہاں جاکے ان کمروں کا سائز لایا اور بریپ سے مرتنگ تک کمیونٹی کو ساتھ لیکر ایک میٹنگ منعقد کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ پہلے استچ سے مرتنگ گاوں کے لوگوں کو بریپ سے ملانے کےلیے دریائے یارخون کے اُوپر پل (موزیت) بناینگے اور اس کے بعد بریپ تا مرتنگ کے عوام ملکر ریئسو ڈوک بریپ کے مقام پر جو ایک عوامی جگہ ہونے کے ساتھ محفوظ بھی ہے سکول کی عمارت تعمیر کرینگے۔ ریئسو ڈوک بریپ آجکل گورنمنٹ ہایئر سیکنڈری سکول اس مقام پر تعمیر کی گی ہے کی اپنی ایک تاریخ ہے اور یہاں ابھی اس پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا ہمارے پاس وقت کی گنجائش نہیں ہے اور اس پر جامع انداز میں کسی اور وقت ریسرچ کرکے لکھنے کی ضرورت ہے۔
High School Brep, Chitralمختصر الکلام اس وقت کے بزرگوں نے اللہ ان کی روحوں کو دائمی سکون میسر کرے دیزگ کے مرحوم صوبیدار علی حُرمت خان کی قیادت میں ریئسو ڈوک میں آٹھ کمروں پر مشتمل اس مادر علمی کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایا۔ مرتنگ سے لیکر جملشٹ تک گھر گھر جاکر عمارتی لکڑی جمع کیے اور اس ٹیلے کو ہموار کر کے وہاں اس عمارت کو عملی جامہ نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دینے میں کامیاب ہوئے اور یہ سارا کام بغیر کسی اُجرت کے اعزازی طور پر سرانجام دیاگیا۔ اس وقت کی ہماری ماؤں اور بہنوں نے ان خدمت بیکران کرنے والوں کےلیے اپنے گھروں سےخُردونوش کا انتظام کرکے پیش کررہی تھیں اور وہ وقت بھی کافی تنگ دستی کا زمانہ تھا۔اُن کی اس کاوش اور سخاوت کو صد بار سلام۔
مہتر رئیس کے فورٹ کو جو اس وقت ایک ٹیلے کی صورت میں تھا ہموار بناکر جب بلڈنگ کو مکمل کیاگیا تو سرکار کی جانب سے پرائمری سکول کو دہ کے مقام پر جو دو کمروں پر مشتمل تھا وہاں منتقل کرکے لوئر مڈل کا درجہ دیاگیا۔کمیونٹی والوں نے کوشش کرکے دو بھائیوں کو جن کا تعلق پونیال گلیگت ایجنسی سےتھا بطور ٹیچر بریپ لایا گیا۔ان میں سے ایک میٹرک اور دوسرا مڈل پاس تھا۔اساتذہ کی حیثیت سے سرکار کی جانب سے کچھ قلیل اُجرت بھی ان کو ملتی تھی البتہ ان کی رہائش اورطعام کا انتظام کمیونٹی اپنی جانب سے برداشت کرتے تھے۔سکول کا لوئر مڈل ہونا تقریبا۱۹۶۲ء کی بات ہے۔ان اساتذہ کے بعد مرحوم اُستاد غیرت بیگ صاحب بھی اس سکول میں علم کی ضیاپاشی کےلیے گران قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔پرائمیری اور لوئر مڈل تک اس مادر علمی کے مایہ ناز طلباء میں مشہور ماہر تعلیم جناب لیاقت علی صاحب،پرنسپل بلبل بیگ صاحب، مرحوم قاسم علی جان صاحب، سپرنٹینڈنٹ ڈاکخانہ جات جناب گل زار صاحب، اُستاد مس خان صاحب قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام حضرات اس سکول کے اولین پیداوار ہیں اور علاقے کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کی ہیں۔ آغاخان ایجوکشن سروس کو چترال میں متعارف کرانے اور اس کے ذریعے فیمل ایجوکشن کو علاقے میں عام کرنے میں جناب لیاقت علی اور اس کے ٹیم کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔
حکومت نے کرم نوازش کرکے تقریبا ۱۹۶۶ء کو سکول کو مکمل مڈل کا درجہ دیا۔پہلے پہل مرحوم گل مراد حسرت صاحب ہیڈ ماسٹر کے فرائض سرانجام دیئے۔۱۹۷۲ء میں جب میرے مرحوم والد محترم مجھے پہلی جماعت میں داخلہ کے لیے سکول لے گیا تو مرحوم گل مراد صاحب کو سکول کا ہیڈ ماسٹر پایا۔ اُس زمانے میں مڈل تک فارغ التحصیل نامور سٹوڈنٹس میں برگئیڈیر ریٹائرڈ خوش محمد صاحب، جناب حاجی یار صاحب، ڈاکٹر قیوم صاحب کھوز، مرحوم منیجر زار محمد صاحب قابل ذکر ہیں۔

علامہ اقبال اُپن یونیورسٹی کے تناظر سے دیکھا جائے تو جاجی یار صاحب کی خدمات پوری چترال کے لیے عموما اور وادی یارخون کے لیے خصوصا قابل صد تعریف ہیں۔ خاص کر گورنمنٹ ہائی سکول بریپ میں امتحانی سنٹر قائم کرکے ہزاروں خواتین و حضرات کو تعیلمیافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کام کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔

برگیڈیر خوش محمد صاحب طویل عرصہ پاک آرمی ایجوکیشن کور میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ریٹائر ہو کر آغاخان ایجوکیشن سروس پاکستان میں بطور جنرل مینجر گلگت بلتستان اور چترال کے عہدے پر نمایان خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور خاص کر کوالٹی ایجوکیشن انہانسمنٹ کے حوالے سے صاحب موصوف اور اس کے ٹیم کی کاوشیں بہت ہی دیدنی ہیں۔
ء کو حکومت کی جانب سے ۱۹۷۹مڈل سکول بریپ کو ہائی سکول کا درجہ دیا گیا اور اسی اثباء میں طویل عرصے سے جناب استاد مس خان صاحب مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتا ارہا تھا۔ جب سکول ہائی کا درجہ پائی تو چارسدہ سے جناب روح الامین صاحب کوئی ایک سال تک بطور ہیڈ ماسٹر یہاں کام کیا۔ اس کے بعد اُستاد محترم جناب شیرولی خان اسیر صاحب کمیشن کوالفی کرکے ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر مامور ہوگیا۔ اس ابتدائی دنوں میں سکول کو منظم کرنے اور طلباء وطالبات کو آموزش کی جانب گامزن کرنے میں صاحب موصوف اور اس کے ٹیم کی خدمات قابل ستائش ہیں۔

اس کے بعد دوسرا ہیڈ ماسٹر جناب علی اکبر صاحب آئے اسطرح بالترتیب جناب بلبل بیگ صاحب، جناب عبدالحکیم صاحب، جناب سردار علی صاحب مرحوم اور اب یہ فرائض جناب بشارت صاحب آپ کا تعلق تورکہو سے ہے اور نہایت قابل اور فرض شناس استاد ہیں اور سکول کی تعمیر وترقی میں ہمہ تن اپنی ٹیم کو لیکر مصروف ہیں۔سال گزشتہ میں سرکار کی جانب سے سکول میں گیارویں اور بارہویں جماعتوں کا اجراء کرکے سکول کو ہائر سکنڈری کا درجہ اس بنیاد پر دیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ طلباء وطالبات کو داخلہ دلوا کر اسے کامیاب بنایا جائے۔

اس حوالے سے سکول کے ہیڈ ماسٹر اپنی ٹیم کو لیکر بہت جدوجہد کے بعد کلاسوں کا اجراء کیا ہے۔ یہ کام اکیلا سکول انتظامیہ ہی سرانجام نہیں دے سکتی ہے البتہ ہم علاقے کے تمام عوام، ماں باپ سارے اپنا مثبت رول ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ہمارے بعض علاقے کےلیے درد رکھنے والے عمائدین اس کار خیر میں مصروف بھی ہیں۔ اللہ پاک انہیں اور بھی ہمت دے۔
آخر میں اس حقیر سی تحریر میں ایک اہم بات کا اضافہ نہ کروں تو ایک قسم کا ظلم ہوگا وہ یہ کہ تعلیم کے حوالےسے مرور زمانہ کے ساتھ اس علمی ادارے نے جو اہم رول ادا کیا اور اس ادارے سے فارغ التحصیل جن چند اہم شخصیات کا میں نے تزکرہ کرنے کی کوشش کی ہے ان میں سب کا ذکر یقینا میں نہیں کرسکا اس لیے معذرت خواہ بھی ہوں۔ البتہ جن کا ذکر کیا گیا ہے سارے وہ ہمارے قابل قدر بزرگ میل ہیں۔ اس نہایت نازک اور تاریخ ساز دور میں علم کی نعمت سے منور ہونے والے ہمارے ان بزرگ بھائیوں کے ساتھ ہماری ایک بہن کا نام گرامی بھی قابل دید ہے اور وہ ہے ہماری آپا جم شیلی کائے۔ اس نہایت ہی پچیدہ دور میں لوگ اپنے بیٹوں کو سکول تک لانے کےلیے تیار نہیں تھے یہ بہن کسطرح سکول تک رسائی حاصل کی اور پھر یہاں مڈل پاس کرنے کے بعد تعلیم کو جاری رکھنے کےلیے کراچی تک جانے کی ہمت کسطرح ہوئی یہ ایک الگ داستان ہے۔

اس حوالے سے مختصرا یہ عرض کروں کہ اس سارے کار خیر کا کرڈیٹ جم شیلی کائے کے والد محترم میکی مرحوم خان جعمدار ڈوک کو جاتاہے۔ صاحب موصوف نے اپنے دور کے بہت سارے معاشرتی مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے دور کےلیے بھی اور بعد میں آنے والوں کے لیے بھی یہ مشکل راستہ ہموار کرنے میں کماحقہ کامیاب ہوگیا کہ علم جس طرح بیٹوں کا حق ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی ہے۔ اس طرح جم شیلی کائے اپنی تعلیم کو مکمل کرکے طویل عرصے تک آغاخان ہیلتھ سروس میں علاقے کی گران قدر خدمات سر انجام دینے کے بعد پھر کرئیر تبدیل کر گورنمنٹ ایجوکشن میں ایک ٹیچر کی حیثیت سے کام کرکے اب ایک پُراسایش ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہی ہے اور آپ کے بچے بھی والدین کے نقش قدم پر چل کر کوالٹی پرفشنل ایجوکشن حاصل کر کے ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں۔

یہ مختصرا گورنمنٹ ہائی سکول بریپ کی علمی کہانی ہے۔

2 Replies to “شمع جلائے رکھنا: ھائی سکول بریپ”

  1. اپنے گاؤں کے مادر علمی کا تعارف کرکے اس کا حق ادا کیا ہے شوکت علی صاحب! ادارے کی ابتدا اور مڈل کا درجہ پانے کے سال درست نہیں لگتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *