داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
خیبر پختونخوا کی حکومت نے غیر فعال ہسپتا لوں کو پوری طرح فعال بنا کر عوام کوا ن کی دہلیز پر سہو لیات دینے کے لئے نجی شعبے کے اشتراک سے ایک تدریجی عمل شروع کرنے کا پہلا معا ہدہ کیا ہے پہلے مر حلے میں 10ہسپتا لوں کو نجی شعبے کے حوالے کر کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلا یا جا ئے گا اس معا ہدے کی تقریب میں وزیر اعلیٰ محمود خا ن بھی مو جو د تھے منصو بے کی تفصیلات بتاتے ہوئے صو با ئی وزیر برائے صحت اور خزا نہ تیمور سلیم جھگڑا نے اخباری نما ئیندوں کو بتا یا کہ ہمارے پا س ہسپتا لوں کا بہترین بنیا دی ڈھا نچہ مو جو د ہے لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے اس انفرا سٹرکچر سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا یا جا رہا
کئی ضلعی ہسپتا لوں کو سی ٹی سکین یا ایم آر آئی کی ضرورت ہے کئی ہسپتا ل ایسے ہیں جہاں ایکسرے اور لیبارٹری کی جدید مشینری در کار ہے کئی ہسپتا لوں میں لیڈی ڈاکٹر اور ڈینٹل کلینک کی سہو لت نہیں کئی ہسپتا ل ایسے ہیں جہا ں دس بیما ریوں میں سے آٹھ بیما ریوں کے سپشلسٹ کی آسا میاں خا لی پڑی ہیں حکومت کی اتنی استعداد نہیں کہ اس طرح کی خا میوں پر قا بو پا سکے اس لئے حکومت نے عوامی مفاد میں نجی شعبے کے اشتراک سے ایسے تما م ہسپتا لوں کو پری طرح فعال بنا نے کا پرو گرام وضع کیا ہے اس کے دو بڑے فائدے ہونگے ، حکومت کے فراہم کئے ہوئے بنیا دی ڈھا نچے سے کا م لیا جا ئے گا بنیادی ڈھا نچہ کا ضیا ع نہیں ہو گا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ عوام کو ضلع کے اندر علا ج معا لجہ کی بہترین سہو لتیں ملینگی اور جدید ترین مشینری دستیاب ہو گی ، وزیر صحت نے وضا حت کی کہ ما ضی میں نجی شعبے کے اشتراک سے چلنے والے ہسپتا لوں میں لو گ مخصوص فیسوں کی شکا یت کر تے تھے اب صو با ئی حکومت نے صحت انصاف کا رڈ کے ذریعے عوام کو مفت سہو لت فراہم کی ہے اس بنا ء پر نجی شعبے کی طرف سے جو فیس مقرر ہو گی اس کا بو جھ غریب عوام پر نہیں پڑے گا حکومت بیمہ کمپنی کو ادا کریگی بیمہ کمپنی ہسپتا ل کے بل جمع کرے گی اگر غور سے دیکھا جا ئے تو صحت کے شعبے میں نجی شعبے کا اشتراک مو جو د ہ زما نے کا انقلا بی اقدام ہے
ما ضی میں چھوٹے پیما نے پر اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے صحت انصاف کارڈ کی سہو لت سے پہلے عوام پر فیسوں کا بوجھ پڑتا تھا اب یہ بوجھ بیمہ کمپنی برداشت کریگی عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا یہ حقیقت ہے کہ 1972اور 1988کے درمیان سولہ سالوں میں خیبر پختونخوا کے تما م اضلاع کو ہسپتا لوں کی تعمیر کے لئے وسائل فراہم کئے گئے جن کی مدد سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتا ل ، تحصیل ہیڈ کوار ٹر ہسپتا ل، رورل ہیلتھ سنٹر اور بیسک ہیلتھ یو نٹ قائم کئے گئے ایک ایک ضلع میں ایسی 38عما رتیں قائم ہوئیں 1988ء کے بعد سیا سی انتشار کا زما نہ آیا یہ عمارتیں استعمال میں نہ آسکیں 2001ء میں ڈیو لوشن پلا ن کی وجہ سے صحت کی فراہمی کا پورا نظام متاثر ہوا اس کے بعد پھر سیا سی افراتفری کا دور آیا چنا نچہ ہسپتا لوں کی جو عمارتیں قائم ہوئی تھیں ان عمارتوں میں علا ج معا لجہ کی سہو لتیں فراہم کرنے پر تو جہ نہیں دی گئی کئی دفعہ اخبارات میں رپورٹیں آئیں کہ کسی جگہ حا دثہ ہوا دو کلو میٹر فاصلے پر بیسک ہیلتھ یو نٹ کی خا لی عمارت تھی، 15کلو میٹر کے فاصلے پر رورل ہیلتھ سنٹر کی خا لی عمارت تھی زخمیوں کو 30کلو میٹر مزید سفر کر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لا یا گیا تو ان میں سے کئی جا نیں ضا ءع ہو چکی تھیں اس ہسپتال میں سی ٹی سکین نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو پشاور ریفر کیا گیا توراستے میں ان کی موت واقع ہو گئی نجی شعبے کے اشتراک سے ہسپتال چلا ئے گئے تو ایسے واقعات نہیں ہو نگے۔