قصہ خوانی کا گوشہ ادب
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
پرو فیسر صاحب اپنی الما ری سے جو کتاب نکا لتے ہیں اس پر گوشہ ادب کی مہر لگی ہوتی ہے ایک دن طا لب علموں نے پو چھا سر! قصہ خوانی میں اس نا م کا کوئی سائن بورڈ نہیں ملتا پرو فیسر نے کہا یہ سائن بورڈ نہیں صرف مہر ہے اور مہر لگانے والا ممتاز عسکر ی تھا اس کے نا م کا بھی کوئی سائن بورڈ نہیں ملے گا یہ ایسی کہا نی ہے جس کو سمیٹ لیجئے تو دو جملوں میں آتی ہے اور پھیلا ئیے تو ہزار داستان ہے
شبقدر چارسدہ سے بختیار احمد مرحوم 1910ء میں پشاور آکر بس گئے کتا بوں کی دیدہ زیب جلد بندی سے کاروبار شروع کیا اس کے بعد کتا بوں کے تاجر بن گئے کتا بوں سے رشتہ جوڑ نے کے ساتھ ساتھ برصغیر کی خا کسار تحریک سے بھی رشتہ جوڑ لیا علا مہ عنا یت اللہ مشرقی کے مرید، مداح اور سپا ہی بن گئے خا کسار کی خا کی وردی اور خا کسار کا بیلچہ ان کے دو نشان بن گئے
علا مہ مشرقی کی کتاب تذکرہ انہوں نے گویا گھول کر پی لیا صراط مستقیم کو زند گی بھر کے لئے اپنایا خا کسار کا رسا لہ الا صلا ح لا ہور سے ان کے نا م آتا تھا صفدر سلیمی اس کے مدیر اعلیٰ تھے 1957ء میں اپنی وفات تک صفدر سلیمی سے بھی تعلق قائم رکھا ان کے تین بیٹے ہوئے نیاز احمد، اقبال احمد اور ممتاز احمد، نیاز صاحب سیرو سیا حت کے دلدادہ تھے پوری دنیا گھوم آئے اقبال احمد نے ”مصاحب شہ“ کا پیشہ اختیار کیا سول سروس کے افیسر بنے جبکہ ممتاز احمد نے عسکری کا تخلص اپنا یا بختیار سنز کے نا م سے باپ کے کاروبار کو سنبھا لا مگر اس انداز اور اسلو ب سے کاروبارکیا کہ اس کو کاروبار سے زیا دہ شوق، ذوق، سلوک، محبت اور الفت و مو دت کا ذریعہ بنا یا گو شۂ ادب ان کی دکا ن کا وہ گو شہ تھا جہاں امیر خسرو اور میر انیس سے لیکر پر وین شا کر اور جون ایلیا تک بر صغیر کے نا مور ادیبوں اور شاعروں کی شہکار کتا بیں رکھی جا تی تھیں مجھے ڈاکٹر سید امجد حسین، ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، پرو فیسر خا طر غز نوی، رضا ہمدانی اور فارغ بخا ری کی کتا بیں گو شۂ ادب ہی سے ہاتھ آگئیں استاد بشیر اور شعیب خا ن سے میری واقفیت کا ذریعہ بھی گوشہ ادب ہی تھا، شعیب خا ن نے میرے کا لموں کا مجمو عہ پرواز شائع کیا تو گوشہ ادب کی وسا طت سے مجھ تک پہنچا یا ممتاز عسکری اپنی ذات میں انجمن تھے آدھ گھنٹہ ان کے شوروم میں بیٹھنے والا شہر کے بیسیوں ادیبوں، شاعروں اور دا نشوروں سے ملا قات کا شرف حا صل کرتا تھا
آپ خو د بھی بڑے پا یے کے مفکر اور دانشور تھے جب لکھتے تھے تو مختصر جملوں میں بڑی بڑی با تیں لکھ ڈالتے تھے زاہد حسین انجم کے نا م لکھے گئے خط میں کئی بڑی باتیں آسان اسلوب میں لکھی ہوئی ہیں مثلاً اپنے دیس میں غریب بھیک ما نگتا ہے، متوسط طبقہ قرض ما نگتا ہے اور امیر مزید مانگتا ہے اس کے بعد لکھتے ہیں اپنے دیس میں رہنے کے لئے امیر ہو نا اتنا ہی ضروری ہے جتنا پردیس میں رہنے کے لئے پا سپورٹ پر ویزہ لگنا لا زمی ہو تا ہے خط کا اخری جملہ دریا کو لا کر ایک کوزے میں ڈال دیتا ہے ”اب جدید طرز کی فر دوسی رہائشی بستیوں میں نما ئشی مکین اجتما عی طور پر انفرادی زندگی گذار تے ہیں“ ایک مختصر خط میں پا نچ بڑی حقیقتیں سما گئی ہیں خیبر پختونخوا کے جواں مر گ شاعر غلا م محمد قاصر کی وفات کے روز آپ نے ایک جملہ لکھ کر اپنی میز پر شیشے کے نیچے رکھ دیا جملہ یہ ہے ”خوشبو جب اپنے حسن کا اظہار نہیں کر پا تی تو بکھر جا تی ہے غلا م محمد قاصر بھی خو شبو سے کم نہ تھے جب اظہار ذات میں اطمینان نہ ملا تو خو شبو کی طرح حسین یا دیں چمن کو دے کر خود بکھر گئے جنگل کو چل دیے سارے سپیرے بین لئے، بستی میں رہنے والے سانپ بہت ہی زہریلے تھے (قاصر) قصہ خوا نی کا گو شہ ادب ممتاز عسکری مر حوم کا نادر و نا یا ب گو شہ تھا۔