چترال کی روایتی تیراندازی
زمانہ قدیم اور کافر دور سے چترال کی تیر اندازی کی بڑی شہرت رہی ہے۔ امیر تیمور نے یہاں کے کفار سے جنگ ہونے پر ان کی تیراندازی کی بڑی تعریف کی ہے حالانکہ اسکے اپنے تاتاری مغل اور ترک خود بہترین تیر انداز مانے جاتے تھے۔
معلوم ہوا ہے کہ چترال میں آخری تیر اندازی کی مشق 1955 میں شاہی قلعہ چترال کے سامنے میدان میں ہوئی اور اس کے بعد سے یہ روایت ختم ہو گئی۔ تاہم چترال کے گاؤں شیخان دیہہ اور ملحقہ دوسری جگہوں پر اور قریبی نورستان کے علاقے میں اس کھیل کو اب تک اچھی طرح رواج کا حصہ بنائے رکھا گیا ہے۔
2014 ء سے میرے چچا زاد بھائی میر زاھد حسام اور میں نے اس میں ذاتی طور پر دلچسپی لی اور سوچا کہ یہ صحت مند کھیل دوبارہ رائج کیا جائے تاکہ صحت مند مشغلوں کی طرف نوجوانوں کا رجحان رہے۔ ریاستی دور کے محکمہ جنگلات کے پرانے بہترین ملازم اور مہتری نگران محترم محمد دین سے معلوم ہوا کہ کالے بید کے درخت سے کمان بنائے جاتے تھے اور کاندو کی لکڑی کہ جس کو ٹھنڈے علاقے کا زیتون بھی کہا جاتا ہے اس کے تیر بنائے جاتے تھے۔ چنانچہ میرے چچا زاد بھائی میر زاھد حسام اور میں نے اس پر کام کیا اور خود ہی تیر اورکمانیں بنائیں اور ان کو اصل حالت تک لانے میں اور طریقہ درست کرنے میں چند سال لگ گئے۔ اس کے بعد ہم اس قابل ہو سکے کے کہ لڑکوں کو تربیت دیں۔
اللہ کے فضل سے چند سالوں سے کئی مواقع پر پر روایتی تیر اندازی کے مقابلے ہوئے اور اور ہمارے شاگردوں نے ان میں حصہ لیا یے۔
اگرچہ ہماری کسی نے سرپرستی یا کوئی انت نہیں کی تاہم یہ بھی شکر ہے کہ مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ صرف کرکٹ اور فٹ بال کی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کھیلوں میں زیادہ شوق نہیں رکھتے اور کھیلوں کے فروغ کی تنظیمیں بھی خلوص سے صرف اپنے اشتہار تک کام کرتی ہیں۔
حال ہی میں جماعت اسلامی کے یوتھ ونگ نے ایک ٹورنامنٹ منعقد کرایا تھا جس میں تیراندازی کے کے مقابلے کو بھی شامل کیا گیا جسکے لئے ہم انکے مشکور ہیں۔ انہوں نے ہم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اس روایتی اور سنت کھیل میں حصہ لینے والوں کو خصوصی اسناد اور انعامات دیں گے۔ انہوں نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرکے دوسرے کھیل میں شامل ہونے والے جانے پہچانے لوگوں کو ہی خصوصی انعامات اور اسناد دئے جبکہ تیر اندازی میں اول آنے والی ٹیم کو ایک چھوٹا سا علامتی انعام دیا اور اس میں دوسرے شرکاء اور مہتمم جو میں خود تھا سب کو بالکل نظرانداز کیا گیا جس کا ہمیں کوئی افسوس نہیں ہے اور ان کی کی اس غیر ذمہ داری اور عہد شکنی پر ہم کو کوئی ملال بھی نہیں ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ہم بغیر وسائل اور پشت پناہی کے بھی اس کھیل کو مزید فروغ دیں گے۔
محمد الیاس خواجہ
گولدور، چترال