دمادم مست قلندر
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
دو سکول جاتے بچوں اور دو گھر بیٹھے بچوں کی ضروریات ہی اتنی تھیں کہ سر پکڑ کے رہ گیا تھا بیوی نے دال چپاتی کھانے کو کہا اس نے کھانے کا بہانا بنایا سایڈ پر ٹھیکہ دار کے ہاں سے تندور کی روٹیاں اور سالن آئی تھی سب مزدور پیٹ بھر کے کھاے ۔بیوی اس کا درد محسوس کر رہی تھی ۔کل اس کو کچہری جانا تھا اور ساتھ بجلی کا اور پانی کا بل بھی داخل کرنا تھا ۔لے دے کے شام ڈھلی۔
سب سے چھوٹی نے گلے لگ کے نئی سویٹر مانگی منجھلے صاحب زادے نے جیب خرچ اور کاپی خریدنے کی فرمائش کی سب سے بڑے نے جوتے مانگے ۔۔وہ خاموشی سے سنتا رہا بیوی اس کا چہرا پڑھتی رہی اور اندر ہی اندر سے کڑتی رہی۔صبح اس نے سیدھا کچہری کا رخ کیا ۔اے سی صاحب کے کلرک نے کچھ کاغذات تھاما دیا نقل نکال کے لاو ۔لایا تو کہا شناختی کارڈ بھی فوٹو سٹیٹ کرکے لاو ۔ لایا توکہا اے سی صاحب کا انتظار کرو ۔۔دس بجے اے سی صاحب آیے ۔باہر فہرست نوٹس بورڈ پر آویزان کی گئی پیشی میں اس کا نمبر تیسرا تھا۔
دو بندوں کو آواز دی گئی پھر چار بندے اور بلائے گیے اس کی باری ہی نہ آئی ۔کسی نے اس کے کان میں کہا کہ آواز دینے والے کو کچھ دینا ہوتا ہے ۔وہ تڑپ کے رہ گیا اس کو اور کام بھی نمٹانے تھے اس کے پاس صرف ایک دن تھا کل مزدوری پہ جانا تھا اس نے آواز دینے والے کو کچھ تھمانے کی بھی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔اتنے میں صاحب دفتر سے نکل کر کہیں چلے گیے ۔کسی نے اس کے کان میں کہا صاحب آج پھر نہیں آئنگے ۔وہ وہاں سے سیدھا بینک گیا بجلی کا بل جمع کر نے ۔وہاں جاکے دیکھتا ہے کہ باہرلمبی قطار ہے وہ لائین میں جا کر کھڑا ہوا بینک کے بڑے دروازے پر کھڑا ادمی بار بار اپنی باری کا اور نظم و ضبط کا کہہ رہا تھا ۔اس نے اپنے سامنے کھڑے معمر شخص کے کان میں کہا کہ ہماری باری کب آئے گی اس نے مسکرا کر کہا میں صبح سے اسی جگہ نظم و ضبط برقرار رکھے ہوئے کھڑا ہوں لوگ گاڑیوں اور موٹر بائیکوں میں آتے ہیں اندر جا کر فیس
بھرتے ہیں اور آرام سے چلے جاتے ہیں میرا سنو تو ہماری باری کبھی نہیں آئے گی ۔اس نے کہا کہ اس پر سر چارج کیسے دیں گے اگر مقررہ وقت گزر گیا ۔اس نے کہا بار بار آ ئینگے کسی نہ کسی دن ہماری باری آئےگی۔جب پانی کا بل ادا کرنے ڈاکخانے پہنچے تو وہاں چھٹی ہو چکی تھی ۔مایوس ہو کر بازار آیا بیٹے کو جوتا خریدے۔۔
پوچھنے پر دکاندار نے حقارت سے کہا تم ہوش میں ہو کہ نہیں ۔وہ دور اور تھا کہ یہ جوتے ہم ہزار روپے میں بھیجتے تھے۔۔اس نے تو اس مہینے سادہ موبائل لینے کا بھی تہیہ کر رکھا تھا ۔ یہ تو اب کی بار بھی خواب ہی رہا ۔پژمردہ چہرہ سیدھا گھر لوٹ آیا ۔۔شام ہوگئی تھی ہاتھ خالی تھے بچے دیکھ کر افسردہ ہو گئے ۔بیوی نے حال پوچھا کہا کہ کوئی کام نہ ہوا ۔جہان بھی جاو دوسرے راستے ہیں مجھے ان راستوں کا پتہ نہیں ۔کام نہیں نکلتا ۔بلیک انڈ وائٹ ٹی وی آن کرتا ہے سیاسی لیڈر کہتا ہے ہم اداروں کو ٹھیک کرنے آیے ہیں ۔انتظامیے کا بڑا آفیسر کہتا ہے ہمارے دفاتر سے انصاف کی کرنیں پھوٹتی ہیں حقدار کو اس کا حق ملتا ہے مجبور کی داد رسی ہوتی ہے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوتا ۔ڈاکٹر کہتا ہے حکومت نے ہسپتالوں میں مفت علاج کا بندوبست کیا ہے ڈاکٹر وقت پر اپنی ڈیوٹی پر پہنچنے کے پابند ہیں ۔ماہر تعلیم کہتا ہے سرکاری اداروں میں بے مثال تعلیم دی جارہی ہے۔
اساتذہ کی کڑی نگرانی ہے ۔وزیر خزانہ کہتا ہے ملک کی معیشت میں استحکام آیا گیا ہے ۔قیمتیں کنٹرول میں ہیں ۔حزب اختلاف کا لیڈر کہتا ہے “دمادم مست قلندر ہوگا ” اس کو ہنسی آتی ہے کوشش کرتا ہے کہ ہنسے یا کم از کم مسکرایے ۔۔اس کے بچوں کے چہرے اس کے سامنے ہوتے ہیں ۔ہر چہرے پر ایک سوال ہے جس کا کوئی جواب اس کے پاس نہیں ۔۔ اور پھر وہ مسکرا اٹھتا ہے ۔شاید اس کو زندگی کا مفہوم سمجھ آگیا ہو ۔۔”دما دم مست قلندر “