بد امنی کی نئی لہر
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
افریقی ممالک سوڈان اور ما لی سے بد امنی کی خبریں آرہی ہیں مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھی ہے اسرائیل نے فلسطینی رفاہی تنظیموں اور امدادی اداروں کے اثاثے منجمد کر دیئے ہیں سعودی عرب اور کویت سمیت عرب ریاستوں نے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیئے ہیں ترکی نے 10مما لک کے سفیروں کو ملک سے نکال دیا ہے
ان ہنگا مہ خیز خبروں کے دوران امریکی حکمران ڈیمو کریٹک پارٹی کے سینیر لیڈر سابق وزیر خارجہ اور مو جودہ نمائندہ خصوصی جان کیری نے سعودی عرب کا دورہ کرکے عرب ریاستوں کے سربراہ اجلا س میں شرکت کی ہے سربراہ اجلا س میں یمن، شام، لبنا ن، ایران اور افغانستان کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کا عزم ظا ہر کیا گیا ان حالا ت میں سینیر سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے جنگ زدہ مما لک کوا یک بار پھر نئی جنگ کی بھٹی میں جھو نک دینے کے لئے سٹیج تیار کیا جا رہا ہے آئیندہ برسوں میں امن کی اُمید نہیں بد امنی کے خد شات بہت زیا دہ ہیں
یہ سفارت کا روں کی مایوسی نہیں بلکہ حالات کا جبر ہے اور حالات کو دیکھ کرآنے والی بدامنی کی لہر کا اندازہ لگایا جا رہا ہے افسوس ناک بات یہ ہے کہ مادی ترقی، سائنسی ایجا دات اور ٹیکنا لوجی پردست رس کے باو جود بیسویں صدی امن سے محروم رہی، اکیسویں صدی آئی تو عراق اور افغانستان کے ساتھ ساتھ شام، یمن اور دیگر ممالک بھی جنگ کی لپیٹ میں آگئے
ایک عالمی مفکر کا قول ہے انسان نے پرندے کی طرح ہوا وں میں اڑنا سیکھا مچھلیوں کی طرح سمندروں میں تیرنا سیکھا لیکن انسانوں کی طرح زمین پر امن کیساتھ رہنا نہیں سیکھا ایک مشہور شخصیت کا قول ہے اگر تم نے تعلیم حاصل کرکے شہری آبادیوں پر بمباری کرنے، سکولوں کو منہدم کرنے، ہسپتا لوں میں مریضوں کو بموں سے اڑا دینے کی مہارت حا صل کی تو تمہاری تعلیم سے کسی جنگل میں بکریاں چرانے والے چرواہے کا ان پڑھ ہونا لاکھ درجہ بہتر ہے
ہمارے دوست پروفیسر فاطمی کہتے ہیں کہ دنیا بارھویں صدی کی طرف واپس جارہی ہے اگر اس رفتار سے واپسی کا سفر جاری رہا تو بہت جلد ہم لو گ چنگیز خان کے دور میں داخل ہو جائینگے یہ بات صداقت سے خا لی نہیں تاہم اس پر اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے اضا فہ یوں ہوگا کہ چنگیز خان کا دور موجودہ زمانے سے افضل اور بہتر تھا اُس دور میں فوج کے مقابلے پر آنے والا فوجی مارا جا تا تھا گھر میں بیٹھا ہوا بوڑھا، نا بینا یا بیمار قتل نہیں ہوتا تھا مو جودہ ترقی یافتہ زمانے میں سکول میں پڑھنے والے معصوم بچے، ہسپتال میں بستر پر پڑے ہوئے بے حال بیمار اور گھروں میں بے خبر بیٹھے ہوئے بزرگ اور خواتین قتل کر دی جا تی ہیں راکٹ، میزائیل اور بم آسمان کی بلندیوں سے گرتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ نشا نے پر کون ہے؟
چنگیز خا ن صرف دشمن کو مار تا تھا آج کا سائنسدان بے گنا ہ اور معصوم شہریوں کی جا ن لے لیتا ہے نیا عالمی منظر نا مہ اس بات کی شہا دت دیتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی کی تباہ کن جنگوں کے بعد 2021ء میں بھی کسی عالمی رہنما کو امن کے قیا م کی فکر نہیں ہے عالمی رہنما وں کی ملا قات جہاں بھی ہو تی ہے جنگ کے لئے محا ذ کھو لنے پر غور ہوتا ہے اور ہر ملا قات کے بعد جنگ کا نیا محا ذ کھل جا تا ہے ایک شیطا نی چکر ہے جس میں اسلحہ بنا نے والی کمپنیوں کے ساتھ پرو پگینڈہ کرنے والی کمپنیاں آگے بڑھتی ہیں سیا ستدان میدان میں آکر دونوں کمپنیوں کے کارو بار کو ما ل و دولت فراہم کر تے ہیں چنا نچہ ایک محاذ پر جنگ کی آگ ٹھنڈی ہوتے ہی دوسرے محا ذ پر جنگ کی نئی آگ بھڑکا ئی جا تی ہے آج کل ما لی، سوڈان، یمن اور شام کے بعد افغا نستان کو ایک بار پھر جنگ کی آگ میں جھونکنے کا انتظام ہو رہا ہے۔