داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
امریکہ میں مقیم افغا ن دانشور اور ناول نگار خالد حسینی کا درد بھرا خط پڑھنے کو ملا خالد حسینی نے امریکہ، یورپ اور باقی دنیا میں بسنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت کی طرح افغانستان میں امارت اسلامی کی فتوحات پر گہرے غم اور تشویش کا اظہار کیا ہے وہ خود افغان ہے مسلمان ہے اس کے وا لدین نے 1980کی دہائی میں کمیونسٹو ں کی فتح سے تنگ آ کر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اورامریکہ میں پناہ گزین ہوئے
کم و بیش 40سال بعد خالد حسینی کو امارت اسلامی کی فتوحات سے خوف آتا ہے وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کو 40سال پہلے کمیونسٹوں سے دشمنی تھی اب 40سال گزرنے کے بعد وہ مسلمانوں سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں ان کوڈر اور خوف ہے کہ افغانستان میں امارت اسلا می کیوں قائم ہورہی ہے انسا نی حقوق اور شہری آزادی کے قوانین کا تقاضا یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور افغانستان کے لئے ایک ہی معیار ہونا چاہئیے مگر ایسا نہیں ہے امریکہ اور یورپ میں انسانی حقوق اور شہری آزادی کا جو معیار ہے اس کے مطابق امریکہ کی آ مش برادری کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق دیا گیا ہے، برطانیہ کی ویلش برادری اپنی مرضی کی زندگی گذار رہی ہے، کینڈا میں مینوناءٹ نام کا قبیلہ ہے جس کو اپنی مرضی کی زند گی گذارنے کا پوراحق دیا گیا ہے لیکن جب افغانستان کے تین کروڑ عوام اپنی مر ضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو امریکہ اور یورپ میں خطرے کی گھنٹیاں بجا ئی جاتی ہیں
وہاں رہنے والے افغا نی بھی چیخ اُٹھتے ہیں کہ ایسا کیو ں ہو رہا ہے یہ لبر ل اور کنزر ویٹیو کی بحث نہیں یہ قدامت پسند اور ترقی پسند کی بحث نہیں یہ صرف انسا نی حقوق کے دہرے معیار کی بحث ہے تم پوری دنیا کے لئے الگ معیار اور افغا نستان کے لئے الگ معیار کیو ں رکھتے ہو امریکہ میں آمش عیسائی قبیلہ جدید دور کی ترقی کو قبول نہیں کر تا ،سڑک اور بجلی کو قبول نہیں کر تا کھیتی باڑی کے لئے مشینوں کے استعمال کو قبول نہیں کرتا، سکول، کا لج، اور یو نیورسٹی کی تعلیم کو نہیں مانتا امریکی آئین نے اس قبیلے کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کا حق دیا ہے ان پر جبر کر کے جدیدیت اور ترقی کو مسلط کرنے کی اجا زت نہیں
برطا نیہ کے ولیعہد شہزادہ چارلس کو پرنس آف ویلز کا خطاب دیا گیا ہے ویلز کی آبا دی ویلش کہلاتی ہے ویلش ایک الگ قبیلہ ہے جو انگریزی زبان، انگریزی سکول اور ذراءع ابلاغ میں انگریز ی کے استعمال کا مخا لف ہے ویلش کو برطانیہ کے قا نون نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ویلش زبان میں تعلیم، اخبار، ریڈیو اور ٹی وی پر و گرام چلا ئیں بازاروں شاہرا ہوں اور دفتروں کے سائن بورڈ انگریزی کی جگہ ویلش زبان میں لکھوائیں یہ ان کا بنیا دی انسا نی حق ہے جسے حکومت نے بھی اور بر طا نیہ کے عوام نے بھی خو شی سے تسلیم کیا ہے اسی طرح کینڈا میں ایک مذہبی اقلیت رہتی ہے اس کو مینو نا ءٹ کہتے ہیں یہ عیسا ئیوں کا الگ گروہ ہے کینڈا کے آئین میں اس کو مکمل آزادی حا صل ہے یہ لوگ الگ تھلگ نہیں رہتے کینڈا ، امریکہ اور افریقہ میں جہاں بھی رہتے ہیں آبا دی میں گُھل مل کر بستے ہیں اور اپنے عقائد پر عمل کرتے ہیں یورپ اور امریکہ کے ذراءع ابلا غ نے کبھی ان کو خوف اور بد امنی کی علا مت قرار نہیں دیا اگر افغا نستا ن کی آبا دی امریکہ سے 7ہزار کلو میٹر دور سمندر پا ر پہاڑی وادیوں میں اپنے مذہب اسلا م کی تعلیما ت کے مطا بق زند گی گذار نا چا ہتی ہے تو باقی دنیا کو کیاتکلیف ہے
تم نے جو حق آمش کو دیا ہے، ویلش کو دیا ہے ، مینو نا ءٹ کود یا ہے وہی حق افغا ن کو کیوں نہیں دیتے خا لد حسینی کی عمر کے افغان دا نشور خود اپنی قوم کو، اپنے ہم وطنوں کو ان کی مرضی کے مطا بق جینے کا حق کیوں نہیں دیتے ایک گوشے سے آواز آتی ہے کہ افغا نوں نے اسلحہ اٹھا یا ہوا ہے جواب یہ ہے کہ امریکہ اور 29یو رپی ملکوں نے اسلحہ لیکر افغا نستا ن پر حملہ کیا تو جواب میں افغا نوں کو اسلحہ اٹھا نے کی ضرورت پڑی آج بھی مخا لف فریق امن سے رہنے دے تو افغان امن کو سینے سے لگا ئینگے۔
ڈاکٹر صاحب اگر ہم بھی انسانی جان کی قدروقیمت کا شکر بجا لاکر امن و اشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو کوئ مسئلہ نہیں شاید