Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

چترال میں قدرتی برف کے کاروباری استعمال کو روکنے کی ضرورت

 محکم الدین 

گرمی کا آغاز ہوتے ہی قدرتی برف کی چترال شہر میں فروخت شروع ہو چکی ہے اور مختلف مقامات سے Muhkam Uddin Ayuniقدرتی برف شہر پہنچائی اور فروخت کی جارہی ہے۔ اس برف کو فالودہ بنانے شربت کی تیاری اور پانی ٹھنڈا کرکے پینے کیلئے کام میں لایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس برف میں مصنوعیت کا اثر نہیں ہے اس لئے یہ اپنے قدرتی ساخت کی وجہ سے ذائقے میں بہترین ہے۔ فرحت بخش مشروبات کے لطف کو دوبالا کرتا ہے اور کئی ایک بیماریوں کیلئے بہت مفید ہے خصوصاً گر میوں میں پھیلنے والی پیٹ کی بیماریوں کیلئے اکسیر کا کام کرتی ہے۔

قدیم زمانے سے برف (یوز) ایک مجرب دوا کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ چترال کے والیان ریاست گرمائی محل بیرموغ لشٹ کے احاطے میں بڑی بڑی خندقیں کھود کر سردیوں میں برف سے ان خندقوں کو بھر دیتے تھے اور گرمیوں میں انہیں استعمال میں لاتے تھے۔ چترال میں کاروباری طور پر برف کا استعمال درہ لواری کے گلیشئیر سے ہوا۔ اس وقت لواری سرنگ کی بجائے آمدورفت لواری ٹاپ کے راستے سے ہوتی تھی اور مسافر کئی گلشئیرز کو عبور کرکے سفر کرتے تھے جہاں آسان رسائی کی وجہ سے گرمیوں کے موسم میں برف کو کاٹ کاٹ کر فروخت کیا جاتا رہا۔ اس وقت لواری کے قریب رہنے والے عشریت کے باشندے صرف مزدوری حاصل کرکے برف کے بلاک تیار کرتے تھے اور روزانہ کی اجرت حاصل کرتے تھے لیکن چند سال پیشتر انہوں نے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا اور سالانہ اسے گاوں کی سطح پر کمیٹی قائم کرکے باقاعدہ طور پر ٹھیکہ پر فروخت کرنے لگے جس سے تین سے پانچ لاکھ روپے رائلٹی حاصل کی جاتی تھی اور یہ برف گاڑیوں میں چترال کے مختلف شہروں خصوصا دروش ایون و چترال شہر کے علاوہ دیر، تیمر گرہ، بٹخیلہ درگئی اور مردان تک پہنچا کر فروخت کئے جاتے تھے۔

برف کے اس کاروباری سطح پر فروخت سے پہلے لواری درے کے نالے میں گرمیوں کے موسم میں وافر مقدار میں پانی ہوتی تھی اب اس نالے میں ایک نہر جتنا پانی دستیاب نہیں ہے کیونکہ لواری کی پہاڑی کھائیوں، گھاٹیوں اور خندقوں میں موجود گلیشئیر کے قدیم خزانے ختم ہو چکے ہیں جبکہ عالمی حدت کی وجہ سے برف باری کی مقدار میں ناقابل یقین حد تک کمی آئی ہے اور برف کے پگھلاو میں بھی بہت زیادہ تیزی آئی ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ برف کے یہ خزانے ہماری زندگی کی بقا کی ضامن ہیں۔ اگر ہم نے ان خزانوں کو غیر دانشمندانہ استعمال سے نہیں روکا تو آنے والی نسلوں کیلئے چترال کی وادی میں زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ قدرت کے بعض نعمتیں اجتماعی فائدے کیلئے ہیں ۔ جن میں برف کے خزانے (گلیشئیرز) بھی شامل ہیں اس لئے کاروباری سطح پر برف کو فروخت کرنے والوں کو نہیں روکا گیا۔ تو وقت گزرنے کے بعد چترال کے لوگوں کو پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ درہ لواری کے گلیشیر کے خاتمے کے بعد اب تریچ کے برف کی کاروباری سطح پر فروخت اور بھی تباہ کن ہے۔

اگر ماحولیاتی اداروں نے اس پر توجہ نہیں دی تو آنے والے خطرات میں مزید اضافہ ہو گا اور قدرتی برف کے خزانے ہمارے غیر دانشمندانہ اقدامات کی وجہ سے ختم ہو جائیں گے۔ اس وقت زندگی کی بقا کو درپیش خطرات سے مقابلہ کرنا چترال کے لوگوں کے لئے ممکن نہیں رہے گا۔

You might also like
1 Comment
  1. shah karez says

    اس ارٹیکل کع پڑھنا اور اس کی پرچار کرنا ہر ذی شعور انسان کے لئے ضروری ہے-محکم الدین صاحب نے یہ ارٹیکل لکھ کر ہم پر احسان کیا ہے

Leave a Reply

error: Content is protected!!