Site icon

جغرافیہ کی ضرورت

Dr Faizi

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

فلسطین، اسرائیل، یروشلم، بیت المقدس، غزہ، مغر بی کنارہ سب جعرافیا ئی نام ہیں ریڈیو، ٹیلی وژن، سوشل میڈیا اور اخبارات میں تسلسل کے ساتھ آرہے ہیں لیکن نئی نسل کو یہ علم نہیں کہ ان ناموں کا باہمی تعلق کیا ہے یہ کہاں واقع ہیں وجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کا جعرافیہ بہت کمزور ہے میری عمر کے لو گ جب 1960ء اور 1970کے تعلیمی نصاب کا ذکر بیچ میں لاتے ہیں تو ہم پر نا سٹلجک کا طعنہ چست کیا جا تا ہے یقینا یہ ما ضی پرستی ہے بے شک یہ نا سٹلجیہ ہے مگر اس سے فرار ممکن نہیں مستقبل کا ہر سفر ماضی سے شروع ہوتا ہے

ایک دانشورکا قول ہے کہ ’’تم نے اگر اپنے ما ضی پر پستول چلا ئی تو مستقبل تم پر توپ چلا ئے گا‘‘ فوج، پو لیس اور سول سروس کے تر بیتی اداروں میں یہ مقولہ جلی حروف میں لکھ کر اویزاں کیا جاتا ہے ما ضی کو فراموش کرکے مستقبل کا راستہ معلوم نہیں کیا جا سکتا پشتو کا شاعر امیر حمزہ شنواری کہتا ہے

وڑم مستقبل تہ دما ضی روایات
حمزہ خپل حال دولولو سرہ زم

میں ما ضی کی روایات کو لیکر زمانہ حال کے جذبوں کیساتھ مستقبل کی طرف گامزن ہوں 1959 میں ہمارے پرائمیری سکول کا سب سے دلچسپ سبق جعرافیہ ہوتاتھا اس کا نام جعرافیہ نہیں تھا اس کو مطالعۃ قدرت کہا جاتا تھا تیسری جماعت میں ہم کو ایک گلوب کے ذریعے سمندر اور خشکی کا تصور سمجھایا گیا ہمارے پرائمیری سکول کے 6کمرے تھے جو گاوں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کر کے دیے تھے ہر کمرے کی دیوار پرایک بڑا نقشہ ہوتا تھا یہ چترال کی ریاست کا نقشہ ہے یہ پا کستان کا نقشہ ہے یہ ایشیا کا نقشہ ہے یہ دنیا کا نقشہ ہے استاد جی کی میز پرگلوب رکھا ہوا ہوتا تھا یہ نا سٹلجیہ ہے آج آپ کسی ہائی سکول یا کا لج میں علم جعرافیہ کی اس طرح کی آگاہی کا سامان نہیں دیکھنگے آج گریجو یٹ کو نقشہ دیکھنا نہیں آتا کیونکہ تعلیمی نصاب سے نقشہ کا نام و نشان مٹا دیا گیا ہے اردو کے ایک استاد نے 32سال کا لج کی سطح پر اردو پڑھایا وہ ہر سال کمرہ جماعت کے لئے بر صغیر پا ک و ہند کا نقشہ منگوانا چاہتا تھا ہر سال پرنسپل کہتا تھا کہ تم نے کونسا جعرافیہ پڑھانا ہے نقشے کے ساتھ تمہارا کیام کام ہے 

اتفاق سے اردو کا پروفیسر پرنسپل بن کر آیا تو اردو کے استاد نے پھر نقشے کا مطالبہ کیا پرنسپل نے وہی جواب دیا تو اردو کے استاد نے کہا مجھے دکن، بیجا پور، گولکنڈہ، لکھنو، امروہہ، دوآبہ، دہلی، انبا لہ، علی گڑھ اور لاہور میں اردو کے ارتقا کا سبق پڑھانا ہے علا مہ اقبال اور فیض احمد فیض کا شہر سیالکوٹ دکھانا ہےاحمد فراز کا آبائی شہر کوہاٹ بھی دکھانا ہے پرنسپل لاجواب ہوا پھر بھی کمرہ جماعت کے لئے نقشہ نہیں ملا اردو کا استاد تختہ سیاہ پر چاک سے نقشہ بناتا رہا ظا ہر ہے پیریڈ کے اختتام پر تختہ سیاہ کو صاف کیا جاتا تھا جعرافیہ سے لاپر واہی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل کو اسرائیل اور فلسطین کے محل وقوع کا علم نہیں، خبروں میں اگر مشرق وسطی کا نام آئے تو ہماری نئی نسل اس کے محل وقوع سے بے خبر لگتی ہے مطالعہ قدرت میں مٹی، پا نی، پہاڑ، سمندر، ہوا، زمین، آسمان اور فضا کے بارے میں جو آگا ہی دی جاتی تھی وہ مفقود ہے ما حو لیات جدید دور کا اہم مو ضوع ہے 1959ء میں پرائمیری سکول کے بچوں کو پڑ ھا یا جاتا تھا کہ چکور کی ٹانگیں لمبی اور مرغی کی ٹانگیں چھوٹی کیوں ہوتی ہیں کوے کی چونچ سیدھی اور شاہین کی چونچ ٹیڑھی کیوں ہوتی ہے چڑیا کیوں گھونسلہ بناتی ہے شاہین گھونسلہ کیوں نہیں بناتا نصاب ِ تعلیم کو ماحول کے ساتھ ایک گونہ مناسبت ہوتی تھی طالب علم کو سوچنے اور غور کر نے کا موقع ملتا تھا بیشک آج اسلامیات بھی ضروری ہے مطا لعہ پا کستا ن کی ضرورت سے انکار کی گنجائش نہیں

اردو انگریزی وغیرہ کی اہمیت اپنی جگہ مگر جعرافیہ کی ضرورت سب سے زیا دہ ہے جعرافیہ نئی نسل کو عالمی حالات سے جوڑتا ہے دنیا کے حقا ئق سے با خبرکرتا ہے، اپنے ماحول سے جوڑتا ہے اور ما حول سے جڑنا سب سے اہم بات ہے 1959ء میں ہمارے سکول کی عما رت کچی تھی مگر اس کے دیواروں پر پکے نقشے تھے کمرہ جماعت میں مطا لعہ قدرت پڑھا جا تا تھا آج صرف عمارت ہے صرف دیوار یں ہیں نقشہ نہیں، جعرافیہ نہیں، مطا لعہ قدرت نہیں۔

Exit mobile version