تم مجھے ڈراوگے
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
تم مجھے یقینا ڈراوگے تجھے حق بھی پہنچتا ہے کہ مجھے ڈرانے کی جرات کرو۔جب میں حق کا پیغام لے کے اُٹھا تھا تو دیوانہ وار نا حق سے ٹکرایا تھا۔ایک اللہ کا نام لے کے اُٹھا تھا اور فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے نکلے ہوئے حرف حرف پر جو خود خداے لم یزل کا پیام تھا جان و تن وارے تھے جو امن کے سایے میں آئے نجات پا گئے تھے جو نہیں آئے اپنے انجام کو پہنچے تھے۔اس وقت تم نے بڑی کوشش کی تھی کہ حق کے دیوانوں کی چمکتی تلواروں کو روک سکے مگر تمہارے بس میں نہیں تھی۔تم نے بہت سازشیں کی تھی مگر کچلے گئے تھے۔تمہیں خیبر میں اپنے انجام کا پتہ ہے۔۔شیر خدا کی ڈھال تمہارے قلعے کے بڑے دروازے کا کواڑ تھا جسے تمہارے ساٹھ پہلوان بمشکل اُٹھا سکتے تھے شیر خدا نے ایک ہاتھ سے اُکھاڑ کر ڈھال بنایا تھا تم بکھر گئے تھے۔دنیا میں حق کا نور پھیلا۔۔تم نیست و نابود ہوگئے۔لیکن دنیا تیری شر سے پھر بھی محفوظ نہیں رہی تم خواب دیکھتے رہے۔مسلمان اپنی میراث کھو بیٹھے جو بیٹا باپ کی میراث کھوتا ہے وہ در بدر کی ٹوکریں کھاتا ہے۔۔تمہیں یاد ہے کہ تم نے بے بس ہوکر گزارش کی تھی کہ میرے مقدس شہر کی چابیاں آپ کا خلیفہ خود آکے لے لے۔۔تمہیں یاد ہے خلیفہ اونٹ کامہار پکڑ کے غلام کو سوار کرکے خود پیدل تمہارے شہر میں داخل ہوگئے تھے تم اپنی مذہبی کتاب پکڑے ان کے کپڑوں کی پیوند گن رہے تھے انہوں نے اپنا بازو اٹھا کر بغل والی پیوند تمہیں دکھایا تو تم نے اپنی مذہبی کتاب کو بوسہ دے کر کہا کہ پیشن گوئی ٹھیک ہے۔چشم فلک نے وہ منظر دیکھا تھا۔۔لیکن وہ چمکتی تلواریں کند ہوگئیں۔وہ گھوڑے لاغر ہوگئے وہ سورما پاوں پھیلا کر سو گئے۔۔تم مجھے ڈراوگے۔۔تمہاری یادیں بہت تلخ ہیں۔۔پھر ایک سورما صلاح الدین نام کا اُٹھا تھا تم سے(صلیبی)مقدس جنگیں لڑیں۔تم پھر تتر بتر ہوگئے۔۔تم پھر مکھیوں کی طرح بھنبھناتے آگئے۔۔لیکن ہٹلر نام کا ایک نازی شیر کا بچہ اُٹھا تمہیں تہس نہس کردیا تم تعداد میں چند رہ گئے تواس نے کہا کہ میں تمہیں اس لیے زندہ چھوڑتا ہوں تاکہ کل دنیامجھے یاد رکھے گی کہ میں نے انسانیت کوانسی شیطانوں سے پاک کیا تھا۔پھر کیا ہوا خلافت اپنوں کے ہاتھوں ٹوٹ گئی۔عرب دنیا بے غیرتوں کا شکار ہوگئی۔ عجم کے لالا زاروں سے کوئی نغمہ نہیں گونجا شیر نہیں اٹھا۔۔تو تم پھر سے شیر ہوگئے۔۔دنیا میں دورعلم سائنس اور ٹیکنالوجی کا آگیا ہم اپنی میراث چھوڑ کر مذہبی بھول بھلیوں میں اُلجھ گئے جہاد کا پاک سبق بھلا دیا۔غفلت کی نیند نے اٹھنے نہ دیا تلواروں کی جگہ توپ تفنگ جہاز میزایل آگئے۔۔ہمارے ہاں کرپشن اور غربت آگئی تمہارے ہاں دیانت اور محنت آگئی۔۔جب تم عربوں سے ٹکرا رہے تھے تو تمہارے پاس کھانے کو لقمہ نہیں تھا مگر تمہاری وزیر اعظم گولڈہ نے جہاز خریدی بم خریدا۔۔ ہم پلاؤ کھا رہے تھے پخنی پی رہے تھے اور شادی کر رہے تھے ہم اب بھی ایسا کر رہے ہیں لیکن تمہارے پاس ہر قسم کا ہتھیار ہے۔۔ہمارے رب نے ہم سے کہا تھا۔۔۔اپنے گھوڑے مضبوط اور توانا رکھو۔۔۔اگر دور حاضر ہوتا تو یقینا حکم دیتا جدید ترین میزائل بناؤ۔۔اب تم مجھے یقینا ڈراؤگے۔میں کسی کام کا نہیں رہا۔۔۔جرم ضیعفی کا انجام مرگ مفاجات ہے۔۔میں بے موت مرونگا۔میرے معصوم بچے وہاں بے موت مریں گے دنیا تماشا دیکھے گی۔۔پوری مسلم دنیا بے بسی کی تصویر ہے۔۔لے دے کے پاکستان نام کا یہ قریہ ہے جس پر بھی دشمنوں کی نگاہیں لگی ہیں کہ یہ انگڑائی لے لے کینہ اُٹھے اس کے شاہین فضاوں کو نہ چیریں۔اس کے جوان تفنگ نہ اٹھائیں۔۔فلحال تم مجھے ڈرا سکتے ہو۔لیکن میرا رب گواہ ہے تم پھر تتر بتر ہوجاؤگے کوئی شیر یقینا اُٹھے گا۔۔